غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق دھماکے ایسے وقت پر ہوئے جب یمن کی نئی تشکیل شدہ کابینہ کے اراکین کا طیارہ ہوائی اڈے پر لینڈ کیا ہی تھا۔
یمن کے بعض عہدیداروں نے دھماکوں کی ذمہ داری ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں پر ڈالی اور اسے ان کا ’بزدلانہ‘ حملہ قرار دیا۔
مقامی میڈیا کے مطابق تمام وزرا دھماکوں میں محفوظ رہے تاہم 50 سے زیادہ افراد زخمی بھی ہوگئے۔
طبی اور سرکاری ذرائع نے بتایا کہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔
ڈاکٹرز ود آوٹ بارڈرز (ایم ایس ایف) نے کہا کہ وہ ’بڑے پیمانے پر حادثاتی طبی ردعمل کا منصوبہ‘ تیار کر رہے ہیں۔
پہلے دھماکے کے بعد جب لوگ زخمیوں کی مدد کے لیے دوڑے تو دوسرا دھماکا ہوا۔
فوری طور پر یہ واضح نہیں ہوسکا کہ دھماکوں کی وجہ کیا ہے۔
اس دوران گولیوں کی بوچھاڑ کی آواز بھی سنائی دی۔
حادثے کے متعلق یمنی وزیر اطلاعات معمر الریانی اور وزیر اعظم معین عبدالملک سعید نے کہا کہ حکومت کے تمام اراکین محفوظ ہیں۔
معمر الریانی نے ٹوئٹ میں کہا کہ ’ہم اپنے عظیم لوگوں کو یقین دلاتے ہیں کہ حکومت کے ارکان ٹھیک ہیں اور ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ایران کی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا کا بزدلانہ حملہ ہمیں اپنا محب وطن فرض ادا کرنے سے باز نہیں رکھ سکے گا‘۔
انہوں نے کہا کہ یہ ‘ناقابل قبول تشدد’ کا عمل ہے۔
وزیر اعظم نے ٹوئٹ کیا کہ ’دہشت گرد حملے یمن اور اس کے عوام کے خلاف چلائی جانے والی جنگ کا ایک حصہ تھے۔
تاہم انہوں نے حوثی باغیوں پر الزام لگانے سے گریز کیا۔