پاکستانی کے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4188 دن مکمل ہوگئے۔ بلوچ طلباء ایکشن کمیٹی کے رہنماوں ار کارکنان سمیت ایچ آر سی پی سندھ کے صدر سعید بلوچ و کارکنان، کوئٹہ سے سماجی اور سیاسی کارکن ایڈوکیٹ خالدہ بلوچ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ گذشتہ سال کے آخری مہینے میں بولان، ہرنائی اور گردنواح میں پاکستانی فورسز نے آپریشن کا آغاز کیا جس کا تسلسل تاحال جاری ہے، دوران آپریشن پندرہ افراد کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا جبکہ علاقوں میں چاروں اطراف مارٹر گولے داغے گئے اسی کیساتھ گن شپ ہیلی کاپٹر شیلنگ کرتے رہیں۔
انہوں نے کہا کہ نیا سال بھی نیک شگون کے ساتھ نہیں آیا، سال کے شروعات میں بھی اہل بلوچستان کا لہو بہنا شروع ہوگیا۔ نہتے ہزارہ کانکنوں کے بے دردی سے قتل کرنے سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں سے چار افراد کی لاشیں اب تک مل چکی ہے۔ ان میں نوشکی سے ایک مسخ شدہ لاش شامل ہیں جو قابل شناخت نہیں جبکہ دالبندین سے لاپتہ ہونے والے نوجوان کی لاش بھی ان میں شامل ہے۔
ماما قدیر کا کہنا تھا کہ لاپتہ بلوچ فرزندوں اور آبادیوں پر آپریشن کے حوالے سے وفاق اور بلوچستان میں بیٹھے ان کے نمائندوں کی جانب سے متضاد بیانات سامنے آتے رہے ہیں لیکن حقائق کو دونوں بیان نہیں کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اپنے زرخریدوں کے ذریعے پرامن جدوجہد کیخلاف پروپیگنڈہ کرنا ہر قبضہ گیر کی ترجیح رہی ہے۔ کیونکہ ان سے یہی امید ہی کی جاسکتی ہے اور یہ سلسلہ مقصد کے حصول تک جاری رہیگی۔