ہم غلام ہیں مگر مانتے نہیں،یہ الفاظ آزاد کشمیر جو پاکستان کے زیر انتظام ہے کے لوگوں کے لیے بلکل درست ہے،اس لیے کہ وہاں کے باشندے اس خوش فہمی میں ہیں کہ وہ آزاد ہیں جبکہ آزاد کے نام پر انکو داعمی غلام بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔
کبھی اشیاء خورد نوش کے خلاف احتجاج پر انکو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا کبھی اپنی حق کے لیے آواز بلند کرنے پر انکو قتل کیا جاتا ہے اور کبھی انسان دوستی اور اپنی قومی تشخص کی شناخت کے لیے انکو پابند سلال کیا جاتا ہے۔
شاید آزاد کشمیر کے عوام اس نیند سے جاگ جائیں کہ وہ آزاد نہیں ہیں،اگر وہ نہیں جاگے تو وہ ابدی غلامی کی نیند کے لیے خود کو تیار رکھیں۔اس وقت آزاد کشمیر میں حالات گھمبیر ہیں۔ تنویر احمد جیسے پڑھے لکھے انسان کو جیل میں ڈال کر نام نہاد آزاد کشمیر کی حکومت نے یہ ثابت کر دیا کہ انکی بھاگ دوڑ وردی والے راولپنڈی والوں کے ہاتھ میں ہے۔
آئیں ذرہ تنویر احمد کے کیس کے سماعت پر روشنی ڈالتے ہیں۔
تنویر احمد جھنڈا کیس کی سماعت 22 دسمبر کو شروع ہوئی جس میں سیکرٹری بلدیہ نے استغاثہ کے گواہ کے طور پر بیان ریکارڈ کروایا۔
پہلی سماعت کے بعد معزز جج کا تبادلہ ہو گیا۔ 29 دسمبر اور 7 جنوری کی سماعت کی تاریخ کے موقع پر بھی نئے جج موجود نہ تھے۔ 22 دسمبر کی سماعت کے دوران ایسی کون سی بات ہوئی کہ اس کے بعد سماعت ہو ہی نہیں رہی۔ انکے ایک قریبی ساتھی نے کہا کہ ان احباب کی تشفی کے لیے میں اختصار سے 22 دسمبر کے ہائی لائٹس بیان کرونگا مگر یہ میرے اخذ کیے گے نتیجہ پر نہیں بلکہ عدالت میں ریکارڈکاروائی پر مبنی منتخب نکتے ییں۔
تنویر احمد کے وکیل چوہدری محفوظ صاحب نے انتہائی موثر انداز میں جراح کا آغازکرتے ہوئے استغاثہ کے گواہ سے پوچھا کہ اسکی بحثیت ملازم کیا ذمہ داری ہے۔ جواب میں گواہ نے کہا وہ سیکرٹری بلدیہ ہے۔
۔۔ سیکرٹری بلدیہ سے اسکی ذمہ داریوں کے متعلق پوچھا گیا۔
۔۔ جھنڈے کے اتارے جانے کے حوالے سے پوچھے جانے والے سوال کے جواب میں سیکرٹری بلدیہ نے پہلے کہا دونوں ملزمان جھنڈا اتار رہے تھے پھر کہا نہیں صرف تنویر نے اتارا۔
۔۔ یہ سوال کہ کیا جھنڈا سرکاری طور پر لگایا گیا تھا تو سیکرٹری نے کہا تقریبات میں لوگ جھنڈے لگاتے اور اتارتے رہتے ہیں۔
۔۔ اگر لوگ پبلک پلیس پر جھنڈے لگاتے اور اتارتے رہتے ہیں تو پھر توئین کیسے ہوئی کہ جواب میں سیکرٹری نے کہا کہ جھنڈا اتار کر نیچے پھینکا گیا مگر تنویر احمد کے وکیل نے کہا کہ تنویر کے خلاف ابتدائی درخواست میں یہ نہیں لکھا گیا کہ جھنڈا نیچے گرایا گیا اور نہ ہی پولیس کو دیے گے بیان میں سیکرٹری نے بطور گواہ ایسا کہا۔ سیکرٹری نے تسلیم کیا کہ درخواست اور موجودہ بیان میں فرق ہے مگر اسکی وہ وجہ نہ بتا سکا۔
۔ سیکرٹری بلدیہ ایسا کوئی حکومتی نوٹیفیکیشن نہ دکھا سکا جس کے تحت مقبول بٹ شہید چوک میں پاکستانی جھنڈا لگانا لازمی تھا یا لازمی ہے۔
سیکرٹری نے کہا اسے پاکستان کے آئین کے تحت پاکستان اور آزاد کشمیر کی حدود کا علم نہ ہے البتہ یہ معلوم ہے کہ پاکستان ایک الگ ریاست ہے۔ پاکستان کا اپنا اور آزاد کشمیر کا اپنا جھنڈا ہے۔
تنویر احمد کے وکیل چوہدری محفوظ صاحب نے 22 دسمبر کو اپنی انتہائی موثر گفتگو سمیٹتے ہوئے کہا کہ پہلی بات ہے کہ پاکستانی جھنڈے کی کوئی توئین نہیں ہوئی۔ دوسری بات ہے کہ پاکستانی جھنڈا آزاد کشمیر میں قومی جھنڈے کے طور پر نہیں بلکہ یکجہتی کے طور پر لگایا جاتا ہے۔
یکجہتی کے طور پر لگائے جانے والے جھنڈے کو اتارنا جھنڈے کی بے حرمتی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار متضاد باتیں سامنے آئیں جنکو اس فورم پر زیر بحث لانا مناسب نہیں لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ جس کسی نے یہ سماعت سنی اس نے یہی کہا کہ تنویر احمد کے خلاف کیس بے بنیاد ہے۔
اس کیس کو بنیاد بنا کر کچھ اور مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ غیر جانبدار تجزیہ نگار وں کا خیال ہے کہ تنویر احمد کا کیس صرف اس ایک گوائی پر بھی ختم کیا جا سکتا ہے۔
سماعت کی تفصیل پر اگر جائزہ لیا جائے تو یہ صاف ظاہر ہے کہ تنویر احمد کو اس لیے پابند سلال کیا گیا ہے کہ وہ کشمیری عوام کی حق حاکمیت کے لیے آواز بلند کر رہے تھے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستانی خفیہ ادارے اسے نشان عبرت بنانا چاہتے ہیں تاکہ کشمیری عوام اپنی حق کے لیے کبھی پاکستانی فوج اور اسکے خفیہ اداروں کے سامنے سر نہ اُٹھا سکیں۔مگر شاید حاکم وقت بھول چکا ہے کہ اب ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں کسی بھی قوم کو بزور طاقت غلام نہیں بنایا جا سکتا۔
کشمیری عوام کو اب اس نیند سے جاگ جانا چائیے کہ وہ آزاد ہیں بلکہ اپنی غلامی کو تسلیم کرتے ہوئے انکو آگے آنا چائیے اور آنے والی نسلوں کے لیے منظم جدوجہد کرنا چائیے۔
نوٹ: کالم نگار کراچی میں مقیم ہیں اور انسانی حقوق کے کارکن کے ساتھ مختلف ایشوز پر لکھتے ہیں