بلوچستان کے سب سے سینئر سیاستدان اختر مینگل نے پاکستانی پارلیمان سے استعفی دے دیا۔
اختر مینگل نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ بلوچستان کے اصلی سٹیک ہولڈر ہم نہیں بلکہ بلوچ عسکریت پسند ہیں اور ان سے بات کئے بغیر صوبے کے حالات درست ہونا ناممکن ہے۔
اختر مینگل نے پاکستانی پارلیمانی سیاست سے متعلق مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “بلوچستان میں انسانی حقوق کے سنگین صورتحال نے اسے یہ قدم اٹھانے پر مجبور کیا ہے، اس ایوان نے بلوچستان کو ہمیشہ نظرانداز کیا ہے اور ہمیں مسلسل دیوار سے لگایا جا رہا ہے”۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ پہ کوئی دباؤ تھا تو اس نے کہا کہ “ہاں، دباؤ تھا میری ضمیر کا دباؤ تھا مجھ پر”۔
بلوچ سیاستدان نے استعفی اپنے والد مزاحمتی لیڈر عطاء اللہ مینگل کی برسی کے دن دیا ہے اور ان حالات میں پارلیمان سے الگ ہوئے ہیں جب بلوچستان میں عسکریت پسندوں کی مزاحمت اپنے عروج پر ہے اور صوبے پر مرکزی حکومت کی گرفت کمزور پڑتی جارہی ہے۔
پاکستانی پارلیمان سے استعفی دینے والے سیاستدان اختر مینگل نے انکشاف کیا ہے کہ 25 اگست کو عسکریت پسندوں کے حملوں کے بعد جب پاکستانی حکومت اور فوج کی مشترکہ اپیکس کمیٹی کا اجلاس ہوا تو اس اجلاس کو خوش کرنے کےلئے میرے حلقے کے 4 لاپتہ نوجوانوں کی لاشیں پھینکی گئی اور کہا گیا کہ ان کو مقابلے میں ہلاک کیا ہے جبکہ درحقیقت ان چاروں نوجوانوں کی آنکھیں نکالی گئی تھی تو کیا وہ بغیر آنکھوں کے مقابلہ کر رہے تھے؟