بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے پارٹی کے فیصلے کے برعکس 26ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے والے اپنی پارٹی کے دونوں سینیٹرز سے کہا ہے کہ وہ سینیٹ کی اپنی نشستوں سے استعفیٰ دے دیں۔
بین الاقوامی ادارے سے بات کرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا کہ ’اگر اِن دونوں رہنماؤں نے استعفیٰ نہیں دیا تو پارٹی اُن کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کرے گی جس کے لیے پارٹی کی جانب سے چیئرمین سینٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیا جائے گا۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ سینیٹر قاسم رونجھو اور اُن کے بیٹے اور خاتون سینیٹر نسیمہ احسان کے شوہر اور بیٹے کو مبینہ طور پر اغوا کر کے ان کو آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ ڈالنے پر مجبور کیا گیا اور اُن پر مسلسل دباؤ ڈالا جاتا رہا۔
تاہم وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور دیگر وزرا بی این پی کے سربراہ کی جانب سے لگائے جانے والے اس نوعیت کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر چکے ہیں۔
’یہاں لنگڑی لولی نہیں بلکہ اپاہج جمہوریت ہے‘
سینیٹ میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے دو اراکین ہیں۔ اُن میں سے قاسم رنجھو سینٹ کے گذشتہ انتخابات میں عام نشست پر کامیاب ہوئے تھے جبکہ نسیمہ احسان خواتین کی مخصوص نشست پر کامیاب ہوئی تھیں۔
سردار اختر مینگل نے کہا کہ چونکہ حکومت کے پاس آئینی ترامیم کو منظور کرانے کے لیے دو تہائی اکثریت نہیں تھی اس لیے انھوں نے اس طرح کے ’شرمناک‘ حربوں کا استعمال کیا۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ وہ دبئی میں تھے تو پہلے ان کے سینیٹرز نے ان کو بتایا کہ ان کو دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔
سردار اختر مینگل نے دعویٰ کیا کہ’جب خاتون سینیٹر کو وزیر اعظم کی جانب سے دیے جانے والے عشائیہ میں لایا گیا تو دبئی سے فون پر ان سے میرا رابطہ ہوا تو وہ رو رہی تھیں جس پر میں نے ان کو تسلّی دی اور بتایا کہ میں آ رہا ہوں۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’جیسے ہی مخالفیں کو میرے وطن واپس پہنچنے کی اطلاع ملی تو انھوں نے ہماری خاتون سینیٹر کو پارلیمنٹ لاجز سے کسی اور مقام پر منتقل کر دیا۔
سردار اختر مینگل نے الزام عائد کیا کہ ’اس کے بعد سے دونوں سینیٹرز اور ان کے رشتہ داروں کے نمبر بند جا رہے تھے لیکن کل ان کو پارلیمنٹ ہاؤس میں سکیورٹی کے حصار میں لایا گیا۔
سردار اختر مینگل کا مزید کہنا تھا کہ ’سینیٹر قاسم رونجھو کو ویل چیئر پر پارلیمان لا کر یہ ثابت کیا گیا کہ یہاں ’جمہوریت لولی لنگڑی نہیں بلکہ اپاہج ہے۔
سردار اختر مینگل نے مزید کہا کہ ’یہ ترامیم دراصل بعض اداروں کی بالادستی کو مزید مستحکم کرنے کے لیے لائی گئی ہیں۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’جو ادارہ سیاسی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں اُن کی اس روش کو روکنے کے لیے کیوں ترامیم نہیں لائی جاتیں؟ تاکہ اُن اداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ نہ صرف الیکشن میں مداخلت سے دور رہیں بلکہ سیاسی جماعت اور الائنس بنانے سے بھی پرہیز کریں۔
انھوں نے کہا کہ ’اس ملک میں اداروں کی مداخلت کی ایک تاریخ رہی ہے۔ عدلیہ پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت کرتی ہے اور پارلیمنٹ عدلیہ کے معاملات میں مداخلت کرتی ہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ تو تمام معاملات میں ہی مداخلت کرتی ہے۔
یاد رہے کہ سینیٹ میں اس ترمیم پر ووٹنگ کے عمل کے دوران بلوچستان نیشنل پارٹی کے دو سینیٹرز، قاسم رونجھو اور نسیمہ احسان، نے پارٹی پالیسی کے برعکس اور ترمیم کے حق میں ووٹ دیے تھے۔