رپورٹ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور قائد حزب اختلاف نے مغرب کے وقفے کے بعد دوسری بار یہ معاملہ اٹھایا تو ڈپٹی اسپیکر غلام مصطفیٰ شاہ نے کہا کہ اسپیکر پہلے ہی انکوائری کی ہدایات دے چکے ہیں۔
اسپیکر ایاز صادق کی موجودگی میں پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے عمر ایوب نے الزام عائد کیا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکار اسمبلی ہال کے اندر اور پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے میں موجود تھے اور انہوں نے پی ٹی آئی کے مغوی ارکان کو آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ دینے کے لیے اپنے ساتھ رکھا۔
انہوں نے اسپیکر کو سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج کے ذریعے معاملے کی تحقیقات کرنے کا کہا اور دعویٰ کیا کہ یہ اہلکار ڈبل کیبن گاڑیوں میں پارلیمنٹ آئے تھے جنہیں گیٹ نمبر 5 میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔
عمر ایوب نے ثبوت کے طور پر وردی میں ملبوس ایک سیکیورٹی اہلکار کی تصویر بھی دکھائی اور کہا کہ ان کی شناخت ہونی چاہیے تاہم اسپیکر قومی اسمبلی نے انہیں روکتے ہوئے کہا ’یہ ممکن نہیں ہے‘۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس معاملے کی تحقیقات ایک آزاد کمیٹی کے ذریعے کی جائیں جس میں سارجنٹ ایٹ آرمز بھی شامل ہوں۔
اپوزیشن لیڈر نے الزام عائد کیا کہ ہفتے کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران بھی یہ اہلکار موجود تھے جب کہ پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کو حکومتی بینچوں پر ایسی جگہ پر بٹھایا گیا جہاں سے وہ پریس گیلری سے دکھائی نہ دیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ انٹیلی جنس اور دیگر ایجنسیوں کی دراندازی اس ایوان اور جمہوریت کو مزید کمزور کرے گی، ’بندوق کی نوک پر ووٹ حاصل کرنے‘ کی غلط روایات قائم کی جارہی ہیں۔