بانک کریمہ بلوچ کے جسدِ خاکی کو فوجی تحویل میں لینا قابض ریاست کی بوکھلاٸٹ کا نتیجہ ہے۔
بانک کریمہ بلوچ،بلوچ قومی تحریک کا ہی سمبل نہیں ہیں بلکہ اس پورۓ ریجن میں خواتین کے لیے انقلابی جدوجہد کے لیے مشعل راہ ہیں۔
کریمہ بلوچ کی لازوال جدوجہد پر ریاست جموں کشمیر کے عوام کی طرف سے خراج پیش کرتے ہیں۔
کریمہ بلوچ کے جسدِ خاکی کو فوجی حسار میں لینا دہشت گرد ریاست کی بزدلانہ حرکت ہے جس کی شدید الفاظ میں مزمت کرتے ہیں۔
یہ ثابت ہوا کہ پاکستانی ریاست بلوچ جہد کاروں کی لاشوں سے بھی خوف زدہ ہے۔پاکستانی ریاست پر بلوچ جہد کاروں کا خوف طاری ہے یہی وجہ ہے کہ قابض ریاست ان جہد کاروں کی لاشوں کو بھی بندوقوں اور بارود کی زیرِ وحشت دفنانے پر مجبور کر رہی ہے۔
لیکن ریاست کو اب یہ اندازہ ہو جانا چاہیے کہ وہ ایک کریمہ بلوچ کا قتل کر کہ ایک کریمہ بلوچ کی لاش کی بے حرمتی کر کہ بلوچ سماج میں سینکڑوں کریمہ بلوچ کو جنم دۓ رہے ہیں۔کریمہ بلوچ جیسے کریکٹر قابض ریاست کے اعصاب پر سوار رہیں گے،
پہلے پہل کریمہ بلوچ کی شہادت پر جب ریاست پاکستان نے محسوس کیا کہ بانک کریمہ بلوچ کی شہادت پر عالمی دنیا کے سامنے پاکستانی ریاست کا بربریت پر مبنی چہرہ بے نقاب ہو رہا ہے اور بلوچستان میں کریمہ بلوچ نوجوانوں کے لیے جدوجہد کا سمبل بن گٸی ہیں تو ریاست نے کریمہ بلوچ کے بیہمانہ ریاست قتل سے عالمی دنیا اور بلوچ عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں کا اجتماعی قتل کروایا اور اب کریمہ بلوچ کی لاش سے خوفزدہ ہو کر کراچی اٸیرپورٹ سے لاش کو فوجی حسار میں لے لیا ہے۔یہ واقعات بلوچ قومی تحریک کی فتح کی طرف پیش رفت کی دلیل ہیں اور قابض ریاست کی طرف سے قبضہ گیریت کو دواٸم بخشنے کی نا کام کوششوں کا تسلسل ہے۔یہ وہ ریاستی وحشت و بربریت ہے جو ہر نٸے مراحلے پر بلوچ قومی تحریک کو مزید پختہ کرتی ہے۔بانک کریمہ بلوچ ایک عظیم قومی کردار ہے جس کی شہادت اور بزدل و مکار ریاست کے آج کے عمل نے بلوچ قومی تحریک کو مزید پختہ مراحلے میں داخل کر دیا ہے۔
قابض ریاست کے سیکورٹی ادارۓ بانک کریمہ بلوچ کو قتل کر گٸے ہیں لیکن ان کے نظریات کو قتل نہیں کر سکتے۔عظیم جہد کار کی لاش کو رات کے اندھیرۓ میں سیکورٹی حسار میں دفنانے پر مجبور کر سکتے ہیں لیکن کریمہ بلوچ کی سوچ فکر اور عظیم کردار سے پھوٹنے والی روشنی کو نہیں روک سکتے اس روشنی سے ایک دن بلوچستان ضرور جگمگاۓ گا۔کریمہ بلوچ کے نظریات۔غلامی سے انکار۔آزادی اور نجات کے افکار اور جہدِ مسلسل پر انھیں لال سلام پیش کرتے ہیں