Site icon News Intervention

جموں و کشمیر میں موسیقی کے کنسرٹس: سیاحوں کو متوجہ کرنے اور معیشت کو فروغ دینے کا مو¿ثر ذریعہ

سید ذیشان
جموں و کشمیر ایک بار پھر بھارت کی سب سے پسندیدہ سیاحتی منزلوں میں سے ایک بن چکا ہے۔ برف پوش پہاڑ، خوبصورت ڈھلوانیں اور پرسکون جھیلیں ہمیشہ سے مسافروں کو اپنی طرف کھینچتی رہی ہیں، لیکن اب یہاں ایک نئی کشش ابھر رہی ہے — موسیقی کے کنسرٹس اور ثقافتی میلوں کی۔ یہ پروگرام صرف تفریح اور دل بہلانے تک محدود نہیں بلکہ یہ وادی کی معیشت کو مضبوط بنانے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور دنیا کے سامنے ایک پرامن، خوشحال اور ثقافتی طور پر زندہ کشمیر کی تصویر پیش کرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ حال ہی میں دل جھیل پر منعقد ہونے والا سونو نگم کا کنسرٹ اس تبدیلی کی علامت ثابت ہوا۔ اس نے ثابت کیا کہ کشمیر صرف قدرتی حسن نہیں بلکہ موسیقی، ثقافت اور انسانیت کے ملاپ کا مرکز بھی ہے۔ 26 اکتوبر 2025 کو دل جھیل کے قریب شیرِ کشمیر انٹرنیشنل کنونشن سینٹر ایک خوبصورت سنگیت مندر میں تبدیل ہو گیا۔ بھارت کے معروف گلوکار سونو نگم نے ہزاروں مقامی افراد، سیاحوں، طلبہ اور سرکاری شخصیات کے سامنے پرفارم کیا۔ اسٹیج کے اردگرد دل جھیل کا نیلگوں پانی اور زباروان کی پہاڑیاں ایک خوابناک منظر پیش کر رہی تھیں۔ برسوں بعد سری نگر میں اس قدر بڑا لائیو کنسرٹ منعقد ہوا تھا، جس نے نہ صرف مقامی لوگوں بلکہ سیاحوں کے لیے بھی یادگار شام بنائی۔ اہلِ کشمیر اپنے بچوں کے ساتھ شریک ہوئے، سیاحوں نے اپنی چھٹیاں بڑھا لیں اور دل جھیل کے اطراف کے تمام ہوٹل مکمل طور پر ب±ک ہو گئے۔ کنسرٹ کا سب سے دل کو چھو لینے والا لمحہ وہ تھا جب سونو نگم نے اپنے گانے کے دوران قریب کی مسجد سے اذان کی آواز سن کر اپنی گائیکی روک دی۔ مجمع مکمل خاموش ہو گیا اور بعد میں ان کی اس احترام بھری حرکت پر پرجوش تالیاں بجا کر داد دی گئی۔ یہ لمحہ پورے بھارت میں وائرل ہوا اور اس نے یہ پیغام دیا کہ کشمیر میں موسیقی احترام، امن اور ہم آہنگی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ اس کنسرٹ کو جموں و کشمیر حکومت کی سرپرستی حاصل تھی، جو سیاحت کو ثقافتی تقریبات کے ذریعے فروغ دینے کی نئی پالیسی کا حصہ ہے۔ یہ پیغام دیا گیا کہ وادی میں اب بڑے اور محفوظ موسیقی کے پروگرام کامیابی سے منعقد کیے جا سکتے ہیں۔ یہ کنسرٹ صرف گیتوں کا مجموعہ نہیں تھا بلکہ اعتماد، یکجہتی اور عام زندگی کی خوشیوں کی علامت بھی تھا۔گزشتہ دو برسوں کے دوران کشمیر میں کئی بڑے موسیقی اور ثقافتی میلوں کا انعقاد ہوا ہے جنہوں نے نہ صرف بڑی تعداد میں سیاحوں کو متوجہ کیا بلکہ کشمیر کی ایک مثبت شناخت بھی قائم کی۔ مارچ سے اکتوبر تک وادی میں شاذ و نادر ہی کوئی ایسا مہینہ گزرتا ہے جب کوئی تہوار یا کنسرٹ نہ ہو۔ یہ تقریبات سیاحتی سیزن کو طویل بناتی ہیں، مقامی فنکاروں کو مواقع فراہم کرتی ہیں اور ہوٹلوں، دکانداروں، ٹرانسپورٹروں اور دستکاروں کے لیے آمدنی کے نئے ذرائع پیدا کرتی ہیں۔ بہار کے موسم میں سری نگر کا مشہور ٹولِپ گارڈن سب سے بڑا مرکز بن جاتا ہے، جہاں ہر سال مارچ اور اپریل میں ٹولِپ فیسٹیول منایا جاتا ہے۔ اب یہ فیسٹیول صرف پھولوں کی نمائش تک محدود نہیں بلکہ اس میں ثقافتی پروگرام، موسیقی کی شامیں، اور کشمیری لوک رقص و گیت شامل کیے جا رہے ہیں۔ لاکھوں رنگ برنگے ٹولِپس کے درمیان جب سنتور بجتا ہے، روف رقص پیش کیا جاتا ہے اور نوجوان گلوکار غزلیں یا صوفیانہ کلام گاتے ہیں تو منظر ایک جیتے جاگتے خواب کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ جدید بینڈ جب گٹار اور ڈرم کے ساتھ روایتی دھنوں کو ملاتے ہیں تو کشمیر کی قدیم اور جدید ثقافت کا حسین امتزاج سامنے آتا ہے۔ اس دوران دل جھیل کے کناروں پر کشتی کی سیر بڑھ جاتی ہے، ہوٹل بھر جاتے ہیں اور کھانے پینے کے اسٹالز کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ فیسٹیول اس بات کی بہترین مثال ہے کہ موسیقی سیاحت اور معیشت دونوں کو بیک وقت تقویت دے سکتی ہے۔ اسی دوران بادام واری گارڈن میں “بادام بلوم فیسٹیول” منایا جاتا ہے، جب بادام کے درختوں پر پھول کھلنے لگتے ہیں تو باغ میں سیاحوں اور اہلِ کشمیر کا ہجوم ہوتا ہے۔ شاعری، موسیقی، مقامی کھانے اور لوک دھنیں ایک خوشگوار فضا پیدا کرتی ہیں۔ یہ چھوٹے مگر معنی خیز پروگرام اس بات کا ثبوت ہیں کہ کشمیر کی شناخت صرف قدرتی مناظر نہیں بلکہ اس کے لوگوں اور ان کی ثقافت میں بھی ہے۔اپریل کے وسط میں زباروان پارک کے کنارے بیساکھی میلہ ایک اور خوبصورت مثال ہے، جہاں پنجابی اور کشمیری موسیقی، بھنگڑا رقص، اور ثقافتی مظاہرے ایک ہی جگہ دکھائی دیتے ہیں۔ رنگ، موسیقی اور ہنسی سے لبریز یہ ماحول ہندوستان کی وحدت میں کثرت کی عکاسی کرتا ہے۔ سیاح یہاں سے کشمیری دستکاری خریدتے ہیں، وازوان کھانوں کا ذائقہ چکھتے ہیں اور شام کے وقت لائیو پرفارمنس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ان کے لیے یہ تجربہ ناقابلِ فراموش ہوتا ہے، جو ثابت کرتا ہے کہ کشمیر امن، محبت اور ہم آہنگی کی سرزمین ہے۔ اگست 2025 میں وادی گریز میں “نیشنل ٹرائبل فیسٹیول” منعقد کیا گیا، جس میں درد-شینا برادری کی ثقافت اور موسیقی کو اجاگر کیا گیا۔ دو روزہ اس تقریب میں قبائلی فنکاروں نے ڈھول، بانسری اور لوک دھنوں کے ساتھ صدیوں پرانی موسیقی کو زندہ کیا۔ رات کو جب آگ جلتی اور موسیقی کی آوازیں وادی میں گونجتیں تو منظر جادوئی ہو جاتا۔ اس فیسٹیول نے نہ صرف خوشیاں بکھیریں بلکہ علاقے کی معیشت کو بھی سہارا دیا۔ ہوم اسٹیز، ٹیکسی ڈرائیوروں اور مقامی ریستورانوں کی آمدنی میں اضافہ ہوا۔ اس طرح سیاحت سری نگر، گلمرگ اور پہلگام جیسے مرکزی مقامات سے نکل کر نئی وادیوں تک پھیل گئی۔ستمبر میں دل جھیل ایک اور شاندار تقریب “جشنِ دل” کی میزبانی کرتی ہے، جو آبی کھیلوں اور موسیقی کا حسین امتزاج ہے۔ دن کے وقت کشتی رانی، ڈریگن بوٹ ریس اور کائیکنگ جیسے مقابلے ہوتے ہیں جبکہ شام ہوتے ہی وہی مقام روشنیوں سے جگمگا اٹھتا ہے اور موسیقی کی دھنیں پانی پر جھلملانے لگتی ہیں۔ صوفی سنگیت، کشمیری لوک گیت اور جدید ڈی جے میوزک ایک ساتھ گونجتے ہیں۔ سیاح اس امتزاج کو بے حد پسند کرتے ہیں کہ دن میں کھیل اور رات میں موسیقی۔ یہ فیسٹیول کشمیر کے تخلیقی اور زندہ دل سیاحتی مزاج کی بہترین نمائندگی کرتا ہے۔ نومبر 2024 میں سری نگر کے ٹیگور ہال میں “شش رنگ فیسٹیول” کا چودھواں ایڈیشن منعقد ہوا جس کا محور صوفی اور لوک موسیقی تھا۔ اس فیسٹیول کا اہتمام جے اینڈ کے اکیڈمی آف آرٹ، کلچر اینڈ لینگویجز نے کیا۔ لعل دید اور حبہ خاتون کی شاعری پر مبنی گیت گائے گئے جنہوں نے سامعین کو مسحور کر دیا۔ طلبہ، سیاح اور فنکاروں کی بھرپور شرکت نے اسے ثقافتی کامیابی بنا دیا۔ یہ فیسٹیول پرانی روایتوں کو زندہ رکھنے اور نئے فنکاروں کو پلیٹ فارم دینے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔اگست 2025 میں “کھیلو انڈیا واٹر اسپورٹس فیسٹیول” کے دوران بھی موسیقی کی محافل کا انعقاد ہوا جس نے کھیل اور ثقافت کو یکجا کر کے نوجوانوں اور سیاحوں دونوں کو متوجہ کیا۔ اس تقریب سے مقامی انفراسٹرکچر میں بہتری آئی — روشنی کے نظام، ساو¿نڈ سسٹم اور سیکیورٹی انتظامات بہتر ہوئے جو اب موسیقی کے دیگر پروگراموں کے لیے بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ ہر اس طرح کا پروگرام کشمیر کے تصور کو بدلنے میں مدد دے رہا ہے۔ اب یہ علاقہ امن پسند، زندہ دل اور دنیا کے لیے کھلا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ موسیقی کے یہ کنسرٹس اور تہوار نہ صرف ثقافتی طور پر اہم ہیں بلکہ ان کے معاشی فوائد بھی نمایاں ہیں۔ ایک بڑا کنسرٹ جیسے سونو نگم کا شو درجنوں محنت کشوں کے لیے روزگار پیدا کرتا ہے — ساو¿نڈ انجینئرز، آرائش کار، فوٹوگرافر، مقامی دکاندار اور ٹرانسپورٹر سب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ سیاح زیادہ دن قیام کرتے ہیں، ہوٹلوں میں رہتے ہیں، کھانے پیتے ہیں اور خریداری کرتے ہیں۔ ان تقریبات کی تصاویر اور ویڈیوز جب سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہیں تو کشمیر کی شبیہ ایک محفوظ، دلکش اور ثقافتی طور پر زرخیز خطے کے طور پر ابھرتی ہے۔ ہر کامیاب تقریب نہ صرف منتظمین کے اعتماد کو بڑھاتی ہے بلکہ آنے والے سیاحوں کو بھی حوصلہ دیتی ہے۔جموں و کشمیر اب ایک “موسیقی سیاحت سرکٹ” کے طور پر ابھرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جس طرح راجستھان اپنے ریگستانی میلوں اور گوا اپنے ساحلی کنسرٹس کے لیے مشہور ہے، اسی طرح کشمیر کو “پہاڑوں کی موسیقی کی منزل” بنایا جا سکتا ہے۔ ہر موسم میں ایک خاص ثقافتی تقریب ہو سکتی ہے — بہار میں ٹولپ فیسٹیول، گرمیوں میں قبائلی اور آبی میلوں، خزاں میں ثقافتی پروگرام، اور سردیوں میں گلمرگ و پہلگام میں غزل نائٹس۔ ٹریول ایجنسیاں ایسے پیکیج ترتیب دے سکتی ہیں جن میں سیاحت کے ساتھ موسیقی کی شامیں شامل ہوں۔ اسکول اور کالجز میں موسیقی کے مقابلے منعقد کیے جا سکتے ہیں تاکہ نوجوانوں کی صلاحیتوں کو نکھارا جائے۔ یہ سب مل کر سینکڑوں نئے روزگار کے مواقع پیدا کر سکتے ہیں اور سال بھر سیاحت کے شعبے کو فعال رکھ سکتے ہیں۔معاشی فوائد سے بڑھ کر ان کنسرٹس کی ایک گہری معنویت بھی ہے۔ یہ امن، خوشی اور بھائی چارے کے پیغامبر ہیں۔ جب سونو نگم نے اذان کے احترام میں خاموشی اختیار کی، جب گریز کے قبائلی فنکاروں نے ستاروں بھری رات میں گیت گائے، جب سیاح زباروان پارک میں رقص میں جھوم اٹھے — یہ سب صرف موسیقی نہیں تھی بلکہ ہم آہنگی کی خوبصورت مثالیں تھیں۔ موسیقی لوگوں کے درمیان فاصلوں کو مٹاتی ہے، خوف کو ختم کرتی ہے اور محبت کو بڑھاتی ہے۔ یہ کشمیر کی کہانی کو تنازع سے نکال کر ثقافت، امن اور مہمان نوازی کی کہانی میں بدل دیتی ہے۔موسیقی سے لطف اندوز ہونے کے خواہشمند سیاحوں کے لیے منصوبہ بندی آسان ہے۔ زیادہ تر تقریبات مارچ سے اکتوبر کے درمیان منعقد ہوتی ہیں۔ سرکاری سیاحت کی ویب سائٹس یا سوشل میڈیا پیجز پر تاریخوں کی جانچ ضروری ہے۔ دل جھیل یا بلیوارڈ روڈ کے قریب رہائش سیاحوں کے لیے موزوں رہتی ہے۔ بڑے میلوں کے دوران ہوٹل اور ہاو¿س بوٹس پہلے سے بک کر لینا بہتر ہے۔ شامیں ٹھنڈی ہو سکتی ہیں لہٰذا گرم کپڑے رکھنا فائدہ مند ہے۔ سیاحوں کو مقامی روایات کا احترام کرنا چاہیے، خصوصاً اذان یا نماز کے اوقات میں۔ اس کے ساتھ ساتھ کشمیری وازوان، قہوہ اور روایتی بیکری مصنوعات کا ذائقہ ضرور چکھیں۔کشمیر میں موسیقی کی سیاحت کا مستقبل روشن دکھائی دیتا ہے۔ حکومت، ثقافتی ادارے اور نجی تنظیمیں مزید کنسرٹس اور فیسٹیول منعقد کرنے کے منصوبے بنا رہی ہیں۔ نوجوان اس میں بھرپور دلچسپی لے رہے ہیں اور مقامی کاروباری طبقہ بھی اسپانسرشپ کے لیے تیار ہے۔ یہ ممکن ہے کہ موسیقی کشمیر کی سیاحتی تقویم کا مستقل حصہ بن جائے۔ ہر کنسرٹ اور ہر نغمہ اس پیغام کو مضبوط کرتا ہے کہ وادی میں امن لوٹ آیا ہے، زندگی مسکرا رہی ہے اور لوگ دنیا کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہیں۔ کشمیر اب پھر گنگنا رہا ہے اور دنیا اس کی دھن سن رہی ہے۔ دل جھیل کے کنارے سونو نگم کا کنسرٹ ہو، گریز کے قبائلی لوک گیت یا ٹولپ گارڈن کی نرم دھنیں — ہر نغمہ امید، یکجہتی اور حسنِ ازل کی گونج بن چکا ہے۔ یہ کنسرٹس محض تفریح نہیں بلکہ امن، شناخت اور ترقی کا جشن ہیں۔ جب سیاح دل جھیل کے کنارے بیٹھ کر سورج غروب ہوتے دیکھتے ہیں اور فضا میں موسیقی گھل جاتی ہے تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ کشمیر صرف دیکھنے کی نہیں بلکہ محسوس کرنے کی جگہ ہے۔ آج کشمیر کے یہ نغمے اس کی نئی کہانی لکھ رہے ہیں — خوشیوں، امن اور خوبصورتی کی کہانی۔

Exit mobile version