Site icon News Intervention

جموں و کشمیر میں تعلیمی ترقی کے لیے سوشل میڈیا کا مو¿ثر استعمال

طارق جنجو عہ
ڈیجیٹل انقلاب کے اس دور میں سوشل میڈیا نے معلومات کی ترسیل، رابطہ کاری اور تعلیم کے میدان میں ایک انقلابی کردار ادا کیا ہے۔ جموں و کشمیر جیسے خطے میں، جہاں جغرافیائی رکاوٹیں، سماجی و ثقافتی تنوع اور بعض اوقات محدود وسائل تعلیمی ترقی میں حائل رہے ہیں، وہاں سوشل میڈیا نے علم تک رسائی کے نئے دروازے کھول دیے ہیں۔ سستے اسمارٹ فونز، بہتر انٹرنیٹ سہولیات اور نوجوان نسل کی تکنیکی مہارت نے مل کر تعلیم کے انداز کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ یوٹیوب، فیس بک، انسٹاگرام، واٹس ایپ، ٹیلی گرام اور X (سابقہ ٹویٹر) جیسے پلیٹ فارمز اب صرف تفریح کے ذرائع نہیں رہے بلکہ انہوں نے خود کو ڈیجیٹل کلاس رومز، رہنمائی مراکز اور کیریئر گائیڈنس پلیٹ فارمز کے طور پر منوا لیا ہے۔ کپواڑہ، کشتواڑ یا پونچھ جیسے دور دراز علاقوں کے طلبائ اب انہی تعلیمی وسائل سے استفادہ کر رہے ہیں جو دہلی یا ممبئی جیسے بڑے شہروں کے طلبائ کے لیے دستیاب ہیں۔ معروف اساتذہ کے ریکارڈ شدہ لیکچرز، آن لائن کورسز، ترغیبی ویڈیوز اور رہنمائی پر مبنی مواد نے علم حاصل کرنے کے عمل کو نہایت آسان اور قابلِ رسائی بنا دیا ہے۔ سوشل میڈیا نے تعلیمی مواقع کو جمہوری بنا دیا ہے،
کیونکہ اب ہر طبقے کے طلبائ بغیر کسی معاشی یا جغرافیائی تفریق کے اعلیٰ معیار کے تعلیمی مواد تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ تعلیمی ادارے اور سرکاری محکمے بھی اس جدید تبدیلی کو اپناتے ہوئے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے پروگراموں، اسکالرشپس، ویبینرز اور دیگر تعلیمی سرگرمیوں کے اعلانات کرتے ہیں۔ جموں یونیورسٹی، ڈائریکٹوریٹ آف اسکول ایجوکیشن اور دیگر ادارے فیس بک اور کے ذریعے طلبائ کو بروقت معلومات فراہم کر کے شفافیت اور رسائی کو فروغ دے رہے ہیں۔ اسی طرح، اساتذہ اور طلبائ نے مختلف کمیونٹی گروپس تشکیل دیے ہیں جہاں نوٹس، اسائنمنٹس اور سوال و جواب پر مبنی مباحثے حقیقی وقت میں ہوتے ہیں، جس سے ہم مرتبہ سیکھنے اور باہمی تعاون کا کلچر پروان چڑھ رہا ہے۔ COVID-19 کے دوران، جب جسمانی کلاسز معطل تھیں، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے طلبائ کے لیے ایک تعلیمی لائف لائن کا کردار ادا کیا۔ یوٹیوب، گوگل میٹ اور زوم کے ذریعے آن لائن کلاسز اور ویبینرز نے اس بات کو یقینی بنایا کہ تعلیم کا عمل رکاوٹ کا شکار نہ ہو۔ مزید برآں، سوشل میڈیا نے استاد اور شاگرد کے تعلق کو ایک نئی جہت دی ہے۔ اب اساتذہ واٹس ایپ اور ٹیلی گرام کے ذریعے تعلیمی مواد بانٹتے، اسائنمنٹس دیتے اور اسکول اوقات سے باہر بھی طلبائ کی رہنمائی کرتے ہیں۔ جموں و کشمیر کے کئی اساتذہ نے یوٹیوب پر NEET، UPSC، اور JKSSB جیسے مسابقتی امتحانات کی مفت کوچنگ فراہم کر کے وہ خدمت انجام دی ہے جس سے ان طلبائ کو بے حد فائدہ ہوا ہے جو مہنگی کوچنگ کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ اس طرح، سوشل میڈیا نے تعلیمی مساوات اور شمولیت کو فروغ دیا ہے،
جس سے معاشی طور پر کمزور طبقات کے طلبائ بھی تعلیمی میدان میں برابری کے مواقع حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، مختلف ادارے سوشل میڈیا کا استعمال ذہنی صحت، ہنر کی ترقی، اور کیریئر رہنمائی سے متعلق آگاہی مہمات کے لیے کر رہے ہیں۔ طلبائ بھی LinkedIn جیسے پلیٹ فارمز پر اپنی تعلیمی کامیابیوں کو ظاہر کر رہے ہیں، پیشہ ور افراد سے جڑ رہے ہیں اور انٹرنشپ کے مواقع حاصل کر رہے ہیں، جس سے J&K کے نوجوانوں میں پیشہ ورانہ اعتماد اور نیٹ ورکنگ کی نئی روح پیدا ہوئی ہے۔ تاہم، سوشل میڈیا کے اس مثبت کردار کے باوجود کچھ چیلنجز بھی موجود ہیں۔ انٹرنیٹ میں بار بار خلل، بعض دیہی علاقوں میں ڈیجیٹل ناخواندگی، اور غلط معلومات کا پھیلاو¿ تعلیمی عمل پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، سوشل میڈیا پر ضرورت سے زیادہ انحصار سے توجہ کی کمی، سطحی مطالعہ اور غیر ضروری مواد کی نمائش کے خطرات بھی ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے کہ طلبائ اور اساتذہ دونوں کے لیے ڈیجیٹل خواندگی کے تربیتی پروگرام ترتیب دیے جائیں تاکہ وہ سوشل میڈیا کو ذمہ داری اور مثبت انداز میں استعمال کر سکیں۔ حکومت ہند کے “ڈیجیٹل انڈیا” اور “اسکل انڈیا” جیسے منصوبے اس ضمن میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں، جن کے تحت سوشل میڈیا کے اخلاقی اور تعلیمی استعمال سے متعلق خصوصی ماڈیولز تیار کیے جا سکتے ہیں۔ اگر ان اقدامات پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے تو سوشل میڈیا نہ صرف تعلیم کی رسائی بڑھا سکتا ہے بلکہ جموں و کشمیر میں علم پر مبنی ترقی اور نوجوانوں کے روشن مستقبل کی ضمانت بھی بن سکتا ہے۔

Exit mobile version