Site icon News Intervention

پانچ فروری کشمیر ڈے، یوم منافقت – تحریر خلیل سائرس

پانچ فروری کشمیر ڈے، یوم منافقت تحریر خلیل سائرس
خوبصورت دھرتی پر جب زندگی نے زور پکڑا اور سماج کی ہیت دن بدن بدلنے لگی تب بہت سے مظاہر پھوٹے جن میں ریاست بھی ایک مظہر کہ طور سامنے آئی۔ اگر انہی ریاستوں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو موجودہ متنازعہ خطہ ریاست جموں کشمیر کو ہم نظرانداز نہیں کر سکتے۔ بلکہ یوں کہیے کہ ریاستوں کی تاریخ میں اس کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ بلخصوص جنوبی ایشیاء میں یہ خطہ ایک جاندار علمی ادبی و فلسفیانہ تاریخ رکھتا ہے۔

دونوں ممالک اپنے اپنے طور پر ریاست جموں کشمیر پر قابض ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ریاست کی سفارتی جنگ لڑنے کے دعوئے دار بھی ہیں۔

انہی دعوں میں سے ایک دعویٰ سڑکوں پر اتر کر اسلامی جمہوریہ پاکستان پانچ فروری کو کرتا دیکھائی دیتا ہے۔
آئیں تاریخی بنیادوں پر تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آیا یہ دعویٰ حقیقت ہے یا افسانہ؟

پانچ فروری کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لئیے حکومت پاکستان کی طرف سے مقرر کردہ دن ہے۔ یہ دن جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد کی ایک قرارداد کی بنیاد پر منایا جاتا ہے۔ پاکستان وہ ملک ہے جو کشمیریوں کا خود ساختہ سفارتی اقتصادی و قومی وکیل ہونے کا دعوئے دار ہے۔ مگر حقیقی معنوں میں مسئلہ ریاست جموں کشمیر کو عالمی سطح پر سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والا ہمارا پیارا خود ساختہ وکیل ہی ہے۔ وکیل و فریق کا تعلق بڑا پائیدار، مخلص دوست و نصیحت دان کا جیسا ہوتا ہے جبکہ ہمارے وکیل کا تعلق دھمکیوں و فتوؤں سے شروع ہو کر بندوق کی گولی و نوک پر ختم ہو جاتا ہے۔

پانچ فروری کومنانے کا اصل مقصد ریاستِ پاکستان کا ریاست جموں کشمیرکی عوام کو یہ یقین دلانے ہیکہ وہ مسئلہ ریاست جموں کشمیر پر جموں کشمیر کے باسیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ مگرریاست جموں کشمیر کی سر زمیں اور تاریخ اس بات کی گواہ ہیکہ پاکستان نے آج تک کشمیر کیلئیے تنکا بھر کام بھی نہیں کیا۔ بلکہ حقیقی نظر سے دیکھا جائے تو پاکستان خود بھی متنازعہ خطہ ریاست پر قابض ہے۔ ریاست جموں کشمیر کا کچھ حصہ جو پاکستان کے زیر انتظام ہے جسے آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کے نام سے جانا جاتا ہے اس کو اس کے اصل حقوق دینے سے قاصر ہے۔ بلکہ اگریوں کہا جائے کہ ریاست جموں کشمیر کو پاکستان نے حق دینے کے بجائے اس کی سرزمیں کو حتیٰ الوسع لوٹنے کی کوشش کی ہے تو یہ غلط نہ ہو گا۔ بڑے بھائی و وکیل کے پروپیگنڈے کے پس پردہ وسائل کی لوٹ کھسوٹ و قبضہ مستحکم کرنے کی کوشش کی گئی۔

موجودہ متنازعہ خطہ چھوٹے چھوٹے راجواڑوں سے 16 مارچ 1846 کے معاہدہ امرتسر کے بعد وجود میں آنے والی ایک جاگیردارانہ ریاست ہے جو اپنے ارتقائی مراحل تہہ کرتی ہوئی عوامی جمہوریہ ریاست جموں کشمیر کی طرف بڑھ رہی تھی۔ مگر پاکستان نے ایک سازش کے تحت عوامی جمہوریہ جموں کشمیر کی تحریک میں نظریاتی ابہامات پیدا کرنے کے بعد تحریک کو غلط رخ دینے کی کوشش کی جسکو باضابطہ طور پر 22 اکتوبر کو پاکستانی اسٹبلیشمنٹ نے قبائلی روپ میں یلغار کی اور سیاسی و نظریاتی ابہامات پیدا کرنے کے عوض چند سکوں اور مراعات و اقتدار کا جھانسہ دے کر اندرون ریاست سہولت کاروں سے 24 اکتوبر کو ایک حکومتی ڈھانچہ بنا کر ہائی جیک کر دیا گیا۔ بیرونی قبائلی حملے اور اندرونی بغاوت کی وجہ سے مہاراجہ ہری سنگھ کی ریاست ناکام ہوئی جسکی وجہ سے اْسے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے دستاویزات پر سائن کرنے پڑے۔

پاکستان کی جانب سے 24 اکتوبر کی حکومت بنوانے کے وقت بہت سی مراعات بخشی گئیں مگر رفتہ رفتہ پاکستان کی طرف سے شکنجا جکڑ دیا گیا۔ پہلے پہل آزاد کشمیر سے وزیر خارجہ، وزیر داخلہ اور ٹیکسیشن کا محکمہ چھین کر یکجہتی کا عملی ثبوت دیا گیا، بعد میں 28 اپریل 1948کو گلگت بلتستان کا انتظام بھی خود سنبھال لیا۔ پھر شملہ معائدہ، تاشقند معائدہ کی صورت میں بازو کاٹ لیے گئے۔ مگر تابوت میں آخری کیل 74 ایکٹ کی صورت ٹھونکی گئی۔
جنگ بندی لائن کو لائن آف کنٹرول میں بدل دیا گیا۔ اور مسئلہ ریاست جموں کشمیر کو سرحدی تنازعہ کہ طور پر عالمی سطح پر پیش کیا گیا۔ اور یوں یکجہتی کی اعلی ترین مثال قائم کردی گئی۔

آج آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی عوام ایک چیف سیکرٹری کے تابع ہیں بلکہ یوں کہیے کہ آزاد کشمیر کہ 49 اسمبلی ممبران پاکستانی وزارت امور کشمیر کہ ماتحت ہے جبکہ گلگت بلتستان کہ سات اضلاع کہ لوگ وزارت امور گلگت بلتستان کہ ماتحت ہیں اور دونوں مجموعی طور پر ایک سیکرٹری کے ماتحت ہیں۔ اختیارات اتنے کہ جو کبھی اپنا کلرک بھی بھرتی نہیں کر سکتے۔ سابق سنئیر وزیر سردار قمرالزمان صاحب اپنے ایک انٹرویو میں اقراربھی کر چکے ہیں بلکہ سردار سکندر حیات صاحب برملا اظہار کر چکے ہیں کہ جی سی او مری کی سیڑیاں چڑھ چڑھ کر میری ٹانگوں میں درد پیدا ہوچکا ہے۔ موجودہ و سابقہ وزیراعظم روتے ہوئے منگلا کی رئیلٹی مانگ رہے ہیں جو کہ اس حکومتی ڈھانچے کی بے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
یکجہتی کا ایک دن منا لو، ملک کے سرکاری اداروں میں چھٹی بھی کر لو تو کیا جموں کشمیر آزاد ہو جائے گا؟ پھر آزاد کس سے کروانا ہے؟

چند سوالات جوکہ مزید یکجہتی کہ ڈرامہ کو ننگا کرنے میں مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔
کیا ریاست جموں کشمیر کو ان کے حقوق مل پائے ہیں؟
ریاست جموں کشمیر پر سب سے پہلے حملہ کس نے کیا؟
آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کو کس حد تک بنیادی سہولیات زندگی اور اختیارات میسر ہیں؟
ریاست جموں کشمیر کے وسائل اور عالمی دنیا سے مانگ کر لائے گئے فنڈز کا حساب کتاب کیا ہے؟
ہم پوچھنا چاہتے ہیں حکومت پاکستان سے اور الحاق کے یاروں سے کہ کشمیر پراپرٹی کے ساتھ پاکستان میں کیا سلوک کیا جا رہا ہے؟؟
کیا کشمیر پراپرٹی سے جو آمدن آتی ہے وہ کہاں خرچ ہو رہی ہے؟؟
اقوام متحدہ میں جموں کشمیر کا تیسرا آپشن کس کے کہنے پر ختم کرکہ اسکو سرحدی مسئلہ بنایا گیا؟
اقوام متحدہ کے کمیشن برائے جموں کشمیر کو کس کے کہنے پر کمیشن برائے انڈیا پاکستان میں تبدیل کیا گیا ہے؟
کس نے سیز فائر لائن کو لائن آف کنٹرول میں تبدیل کروا کر باڑ کس نے لگوائی ہے؟
جموں کشمیر کی قومی لڑائی کو پہلے مجاہدین بھیج کر مذہبی لڑائی اور بعد میں دہشتگردی میں کس نے تبدیل کیا؟
مسئلہ جموں کشمیر کو مزید الجھانے کے لیئے گلگت بلتستان کو کون صوبہ بنانے کے وار کر رہا ہے؟ گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رول کوکون ختم کرکہ بیٹھا ہے؟
آزاد کشمیر کی عالمی نمائندگی کس نے ختم کرکہ رکھی ہے؟
اقصائی چن کو کس نے چین کو دیا ہے؟
جموں کشمیر کے خون کے ساتھ سودا کر کہ جنگ بندی لائن کو لائن آف کنٹرول میں کیوں تبدیل کیا گیا؟ آخر اس میں کیا حکمت چھپی تھی؟ کہیں ادھر ہم اُدھر تم والی حکمت تو نہیں، ہان یقیننا یہی ہے جو مشرف فارمولہ میں ثابت بھی ہو چکی؟

جموں کشمیر کے باسیوں کو ان کی تاریخ سے دور کس نے رکھا ہے؟
مطالعہ ریاست جموں کشمیر کو نصاب میں شامل کرنے کیلئیے ہائی کورٹ نے فیصلہ بھی جاری کیا پھر بھی اس کو شامل کیوں نہیں کیا گیا؟

یکجہتی کشمیر کے نام پر برسوں سے ریاست جموں کشمیر کے باسیوں کو دھوکے میں رکھ کر غلام بنایا جا رہا ہے۔ بس اتنا ہی کہا جاسکتا ہیکہ یکجہتی کا ڈرامہ بند کیا جائے۔ دو کروڑ عوام کی شناخت، زندگی اور مستقبل کا مسئلہ محض سرحدی مسئلہ بنا کر پیش نہیں کیا جاسکتا ہے۔

پانچ اگست کے وزیراعظم آزاد کشمیر ہر فورم پر چینختے رہے کہ عالمی سطح پر ریاست جموں کشمیر کو نمائندگی دی جائے مگر افسوس کہ اسکو مزید محدود کر دیا گیا۔
22 اکتوبر 2019 کو جب پیپلز نیشنل آلائنس آئین ساز و با اختیار اسمبلی کا مطالبہ لے کر رابطہ مہم کے آخری اسٹیشن مظفرآباد پہنچا تو وہاں جو ریاستی تشدد دیکھنے کو ملا وہی اس ڈھونگ کو ننگا کرنے کے لیئے کافی تھا۔
ہم سمجھتے ہیں مستحکم ریاست جموں کشمیر مستحکم جنوبی ایشیاء کی ضمانت ہے۔ ایک فیصلہ کْن لڑائی کی تیاری کرنی ہوگئی۔ تبہی کہیں نتیجہ پیدا ہوسکتے ہیں ورنہ یہ ابہامات صرف جمود ہی پیدا کرئیں۔ مگر یہ ناداں کیا جانیں کہ جمود وقتی ہے جبکہ حرکت آفاقی۔

پاکستانی حکمران جی ایچ کیو اورن کے دلال ریاست جموں کشمیر کی آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ریاست جموں کشمیر کی قومی آزادی کی لڑائی کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں
قبائلی حملے کے ذریعے ریاست جموں کشمیر کے اندر لوٹ مار اور ظلم وستم کا بازار گرم کروایا گیا،
المختصر ریاست جموں کشمیر کی تقسیم کی بنیاد ہی قباہلی یلغار بنا۔۔
آگے چل کر 1949 کو معاہدہ کراچی کے ذریعے گلگت اور نام نہاد آزاد کشمیر کو بھی دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔۔1956 میں گلگت سے سٹیٹ سبجیکٹ رول ختم کر کے پاکستانیوں کو وہاں آباد کروانے کی کوشیش کی۔۔ گلگت کو مکمل طور پر فوجی چھاؤنی بنا کر رکھ دیا گیا۔1962 کو جموں کشمیر کی اکائی گلگت کا ایک حصہ کاٹ کر چین کو تحفہ میں دے دیا گیا۔
معاہدہ تاشقند معاہدہ شملہ سمیت تمام معاہدہ میں پاکستان نے ریاست جموں کشمیر کی تحریک آزادی کو نقصان پہنچایا
پاکستان نے1990 کے اندر جہادی سرگرمیوں کے ذریعے آزادی کی تحریک کو پراکسی وار کا روپ دیا۔لاکھوں نوجوانوں کو پاکستان نے جہاد (فساد)کے نام پر مروایا۔
راجہ تنویر کو جھنڈا تارنے کے جرم میں چار مہینوں سے پابند سلاسل رکھا گیا ہے۔تمام تاریخ کی کتابوں پر پابندی لگا کر رکھی گئی ہے مقبول بٹ کے خطوط پر مشتمل کتاب تک پر پابندی عائد ہے۔ ریاست کے نوجوانوں سے تاریخ چھین کر جھوٹ پر مبنی تاریخ پڑھا کر نوجوانوں کی برین واشنگ کی جاتی ہے۔
پاکستان نے ہم سے ہماری ثقافت و روایات، معشیت و وسائل چھین لیئے۔ ہماری تہذیب کو تباہ کر دیا گیا۔ہم سے ہماری تاریخ چھین لی گئی۔ہمارا جغرافیہ مٹا دیا گیا ہے۔
المختصر پاکستان ریاست جموں کشمیر کی آزادی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔پاکستان اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے جموں کشمیر کے باشندوں کے اندر ابہام پیدا کرنے کے لیے اظہار یکجہتی کا ڈرامہ رچاتا ہے۔۔

Exit mobile version