پاکستان کے پبلک اکاونٹس کمیٹی (پی اے سی) کو آگاہ کیا گیا ہے کہ بیوروکریٹک ریڈ ٹیپ اور غیرپرکشش مراعات نے ملک کی دو پریمیئر انشورنس کمپنیوں ’اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن لمیٹڈ (ایس ایل آئی سی ایل) اور نیشنل انشورنس کارپوریشن (این آئی سی ایل)‘ کو 2 سال سے بغیر چیئرپرسن کے رکھا ہوا ہے۔
پی اے سی کے اجلاس کو مزید بتایا گیا کہ کئی برسوں سے بیوروکریٹس ایس ایل آئی سی ایل اور این آئی سی ایل کے چیئرمین کے قائم مقام چارج سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیف وہپ عامر ڈوگر کا کہنا تھا کہ کامرس اور ٹریڈ گروپ کا ایک افسر اور وزارت تجارت کے ایڈیشنل سیکریٹری سید رافع بشیر شاہ گزشتہ چند سالوں سے این آئی سی ایل کی سربراہی کر رہے تھے اور مستقل چیئرمین کی تعیناتی میں بنیادی رکاوٹ تھے۔
وزارت تجارت کے خصوصی سیکریٹری محمد سہیل راجپوت کا کہنا تھا کہ 2017 سے این آئی سی ایل کے چیئرمین کی تعیناتی کا عمل 4 مرتبہ شروع کیا گیا اور ایک مرتبہ امیدوار کو بھی حتمی شکل دے دی گئی تھی لیکن انہوں نے نسبتاً کم تنخواہ کی بنیاد پر آرگنائزیشن کا حصہ بننے سے انکار کردیا کیونکہ نجی انشورنس کمپنیاں اسی عہدے کے لیے پرکشش پیکجز کی پش کش کر رہی تھیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سہیل راجپوت خود بھی ایس ایل آئی سی ایل کی بطور قائم مقام چیئرمین سربراہی کر رہے ہیں۔
تاہم انہوں نے پی اے سی کو بتایا کہ ایک امیدوار شعیب جاوید حسن کو عہدے پر تعینات کردیا گیا ہے اور وہ 17 مارچ کو ایس ایل آئی سی ایل کو جوائن کریں گے۔
ان کے مطابق شعیب جاوید حسن ہانگ کانگ میں کام کر رہے ہیں اور ان کا انشورنس کے شعبہ میں کافی تجربہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ حکومت ایم پی-ون پیکج میں ملازمت اور 5 سے 8 لاکھ تک تنخواہ کی پیش کش کرتی ہے جبکہ نجی انشورنس کمپنیاں اس سے کئی زیادہ تنخواہوں کی پیش کش کرتی ہیں تو اس شعبے میں وسیع تجربہ رکھنے والے پیشہ ور افراد شاذ و نادر ہی ریاستی ملکیت میں موجود کمپنیوں میں ملازمت کو قبول کرتے ہیں۔
اس موقع پر چیئرمین پی اے سی رانا تنویر حسین نے حیرت کا اظہار کیا کہ کیوں حکومت نے ان دو انشورنس کمپنیوں میں سینئر اور قابل افسران کو تعینات نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ اسی ادارے کا ایک سینئر افسر مارکیٹ سے رکھے گئے تجربہ کار فرد سے زیادہ بہتر کارکردگی دکھا سکتا ہے۔ چیئرمین نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ وزیر خزانہ کو ماہر خزانہ کے طور پر کابینہ میں شامل کیا گیا تھا لیکن انہوں نے معیشت پر زیادہ قرضوں کا بوجھ ڈالا۔
رانا تنویر حسین نے نجی شعبے سے یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن (یو ایس سی) کے منیجنگ ڈائریکٹر کی تعیناتی پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یو ایس سی نے ناقص اور غیرمعیاری خوردنی تیل حاصل کیا۔
علاوہ ازیں پی اے سی نے ایس ایل آئی سی ایل اور این آئی سی ایل سے متعلق آڈٹ پیراس کی اسکروٹنی اس لیے موخر کردی کیونکہ پرنسپل اکاونٹ افسر محمد صالح احمد فاروقی کووڈ 19 کی وجہ سے چھٹی پر ہے۔
اس دوران منزہ حسن نے نکتہ اٹھایا کہ این آئی سی ایل نے اپنا ریکارڈ آڈٹ حکام کے حوالے نہیں کیا۔
اجلاس کے دوران ایک سوال کے جواب میں این آئی سی ایل کے قائم مقام چیئرمین نے پی اے سی کو بتایا کہ 2010 سے جب اس وقت کے چیئرمین اور تمام این آئی سی ایل بورڈ اراکین کو کرپشن کیس میں تعلق پر گرفتار کیا گیا تھا اور اکاونٹس کو برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ 2017 تک ریکارڈ برقرار رکھا گیا تھا اور باقی ریکارڈ کو حتمی شکل دے کر رواں سال اکتوبرتک آڈٹ ٹیم کے حوالے کردیا جائے گا۔
بعد ازاں کمیٹی نے آڈٹ پیراس پر بحث کو آئندہ ماہ تک موخر کردیا۔