Site icon News Intervention

مناسب وقت آنے پر افغانستان سے فوج کا انخلا کیاجائیگا، نیٹو چیف

مغربی ملکوں کے عسکری اتحاد (نیٹو) کے سیکرٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے کہا ہے کہ مناسب وقت آنے سے قبل افغانستان سے فوج کا انخلا نہیں کیا جائے گا۔

بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں پیر کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے نیٹو چیف نے خبردار کیا کہ غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا کے بعد افغانستان عالمی دہشت گرد تنظیموں کا محفوظ ٹھکانہ بن سکتا ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں ہماری موجودگی مشروط ہے اور کوئی بھی اتحادی ضرورت سے زیادہ وہاں رہنا نہیں چاہتا۔ تاہم ہم مناسب وقت آنے تک افغانستان سے نہیں نکلیں گے۔

نیٹو چیف کا یہ بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب رواں ہفتے نیٹو میں شامل اتحادی ملکوں کے وزرائے دفاع کے اجلاس میں افغانستان میں فورسز کی موجودگی اور امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

نیٹو چیف کے بقول، “ہمیں اس توازن کو یقینی بنانا ہے کہ افغانستان میں ضرورت سے زیادہ عرصہ قیام بھی نہ کیا جائے اور وہاں سے بہت جلد انخلا بھی نہ کیا جائے۔”

انہوں نے کہا کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے مئی میں مکمل اںخلا کی ڈیڈلائن پر عمل درآمد سے قبل طالبان کو امن معاہدے کے تحت مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس میں دہشت گرد تنظیموں سے تعلقات منقطع کرنا اور انہیں کسی بھی قسم کی حمایت نہ دینا شامل ہیں۔

یاد رہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ایک مشروط امن معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت غیر ملکی افواج کو افغانستان سے مئی 2021 تک انخلا کرنا ہے۔ اس عرصے کے دوران طالبان کی جانب سے غیر ملکی فورسز کو نشانہ نہ بنانے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔

معاہدے کے تحت امریکہ نے ایک سال کے دوران افغانستان سے اپنے فوجیوں کی تعداد 13 ہزار سے کم کر کے 2500 کر دی ہے۔ تاہم حالیہ کچھ عرصے کے دوران افغانستان میں پرتشدد واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

دوسری جانب امریکہ کے موجودہ صدر جو بائیڈن نے طالبان کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر نظرثانی کا عندیہ دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ دیکھیں گے کہ آیا طالبان تشدد میں کمی کے اپنے وعدے کی پاسداری کر رہے ہیں یا نہیں۔

افغانستان میں 2001 کے اواخر میں شروع ہونے والی امریکہ کی جنگ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ ہے جس میں اس کے 2400 فوجی ہلاک اور لگ بھگ دس کھرب ڈالر خرچ ہو چکے ہیں۔

پیر کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے نیٹو چیف نے طالبان کی جانب سے دشمنی کے خاتمے کے ارادے پر شکوک و شبہات کا بھی اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امن مذاکرات انتہائی نازک صورتِ حال اختیار کر گئے ہیں اور افغانستان میں پرتشدد کارروائیوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے جن میں طالبان کی جانب سے عام شہریوں کو نشانہ بنانا بھی شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان کو لازماً تشدد کا خاتمہ کرنا ہو گا اور نیک نیتی کے ساتھ مذاکرات اور معاہدوں کی پاسداری کرتے ہوئے عالمی دہشت گرد گروہوں کے ساتھ تعاون کو منقطع کرنا ہو گا۔

دوسری جانب افغان رہنماﺅں نے الزام عائد کیا ہے کہ طالبان امن مذاکرات سے پیچھے ہٹ رہے ہیں اور وہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد طاقت کے بل بوتے پر اقتدار پر قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

طالبان نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی تمام شقوں کی پاسداری کر رہے ہیں۔

طالبان نے خبردار کیا ہے کہ اگر 29 فروری 2020 کو ہونے والا معاہدہ منسوخ کیا گیا تو یہ اقدام افغانستان میں جاری 20 سالہ جنگ میں خطرناک حد تک اضافے کا باعث بنے گا۔

سلامتی کے امور کے تجزیہ کار طلعت مسعود کا کہنا ہےکہ نیٹو کے سربراہ کا بیان طالبان کے لیے ایک انتباہ ہے کہ اگر طالبان دوحہ معاہدے کی شرائط کو پورا نہیں کریں گے تو پھر فوج کا بروقت انخلا بھی نہیں ہو گا۔ لیکن ان کے بقول شاید طالبان یکم مئی کی ڈیڈلائن میں کسی توسیع پر تیار نہ ہوں۔

تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی کے بقول اگر طالبان کے بعض مطالبات مان لیے جائیں تو شاید وہ غیر ملکی فورسز کے انخلا کی ڈیڈلائن میں توسیع دینے کے معاملے پر امریکہ سے بات چیت پر تیار ہو جائیں۔

رحیم اللہ یوسف زئی کہتے ہیں کہ امریکہ کے موجودہ صدر جو بائیڈن یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ افغانستان سے امریکی فورسز کو واپس بلانا چاہتے ہیں۔ لیکن ان کے بقول امریکہ کی نئی اتنظامیہ اپنی فورسز کے انخلا سے پہلے طالبان سے بعض معاملات پر یقین دہانی چاہے گی۔

رحیم اللہ کے بقول امریکہ کے لیے یہ امر باعث تشویش ہے کہ ایک طرف طالبان تشدد میں کمی اور جنگ بندی پر تیار نہیں ہیں جب کہ دوسری جانب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جاری امن مذاکرات میں کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔

رحیم اللہ سمجھتے ہیں کہ اگر طالبان کے مزید قیدی رہا ہو جاتے ہیں اور بعض طالبان رہنماوں کے نام اقوامِ متحدہ کی تعزیرات کی فہرست سے نکل جاتے ہیں تو ان کے بقول یہ اعتماد کی بحالی کا ایک اقدام ہو گا۔

Exit mobile version