کراچی میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج جاری،جبکہ لاپتہ افراد کی عدم بازیابی کے خلاف ریلی اور مظاہرہ کیا گیا
سندھ کے دارالحکومت کراچی میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو اتوار کے روز 4238 دن مکمل ہوگئے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی اور وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ کے کے وفد نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں طاقتوں کا توازن ایک نئی رخ اختیار کررہا ہے جس میں شدید تصادمی کیفیت جنم لینے والی ہے۔ ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ پاکستانی ریاست، اس کی فوج و حکمران طبقہ سامراجی پروردہ ہیں ان کے سامنے امن، جمہوریت، انسانی حقوق کی برابری کوئی اہمیت نہیں رکھتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی نام نہاد جمہوریت صرف شعبدہ بازی ہے، پاکستانی پارلیمنٹ پر براجمان افراد تمام تراختیارات سے عاری ہیں انہیں صرف اس بات کی اجازت ہے کہ وہ لوٹ مار، کرپشن، اقرباپروری کرکے اپنے مراعات میں اضافہ کریں۔
ماما قدیر کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکمرانوں نے بلوچ، سندھی، پشتون قوموں کی تاریخی سرزمین پر قبضہ جماکر ان قوموں کی زندگی اجیرن بنادی ہے۔ آج بلوچستان میں پاکستانی حکمران قہر نازل کرچکے ہیں، متعدد بلوچ فرزندوں کو فوجی آپریشنوں کے ذریعے شہید کردیا گیا ہے جبکہ ہزاروں اغوائکرکے لاپتہ کیے جاچکے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ عالمی برادری کی مسلسل خاموشی رجتی ریاست کیلئے حوصلہ مندی کا سبب بن رہی ہے جس کی وجہ سے ریاست نت نئے بہانے تراش کر بلوچ قوم کو نہایت بے رحمی سے کچل رہی ہے۔
سندھ کے مرکزی شہر کراچی میں لاپتہ افراد کی عدم بازیابی کے خلاف ریلی اور مظاہرے کا انعقاد کیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق اتوار کی دوپہر کو ریگل چوک صدر میں وائس فار سندھی مسنگ پرسنز کی اپیل پر سندھی، پشتون اور بلوچ لاپتہ افراد کی لواحقین اور دیگر مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد نے جمع ہوکر احتجاج کیا اور ریلی نکالی۔
ریلی میں شریک خواتین، بچے اور مختلف تنظیموں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے ہاتھوں میں لاپتہ افراد کی تصویریں اٹھا رکھے تھے اور انکی بازیابی کا مطالبہ کررہے تھے۔
ریلی کے شرکاء نے کراچی شہر کے مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے پریس کلب کے سامنے پہنچ کر مظاہرہ کیا۔ ریلی اور مظاہرے میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے لاپتہ افراد کے لواحقین بھی شریک تھے۔
اس موقع پر دو سال قبل متحدہ عرب امارات سے جبری گمشدگی کا شکار ہونے والے نوجوان راشد حسین کی بھتیجی ماہ زیب بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا پاکستان اپنے قانون اور آئین کی پاسداری کرتے ہوئے لاپتہ افراد کو بازیاب کرے۔انہوں نے کہا کہ ہم اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے سراپا احتجاج ہیں اور 12 دنوں تک ہم اسلام آباد میں بھیٹے رہیں لیکن وہاں سے ہمیں وعدہ کرکے بھیجا گیا اب اس امید کے ساتھ اپنے ماؤں کو تسلی دیتے ہیں کہ ان کے پیارے بازیاب ہونگے اور وزیراعظم ان سے ملاقات کرے گا۔
لاپتہ نسیم بلوچ کی منگیتر حانی گل نے کہا کہ نسیم بلوچ سمیت تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرکے لواحقین کو انصاف فراہم کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ ہم ریاست سے کوئی دولت نہیں اپنے پیارے مانگ رہے ہیں جن کو ہم سے چھینا گیا ہے۔بلوچستان سے چار سال قبل لاپتہ ہونے والے سراج بلوچ کی بہن نے کہا کہ میرے بھائی کو بازیاب کرکے ہمیں دوبارہ زندگی بخشا جائے آج ہمارا پورا خاندان اذیت میں مبتلا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ان کی زندگی کے بارے میں معلومات فراہم کی جائے۔
مظاہرے سے سورٹھ لوہار، سارنگ جویو سمیت دیگر سندھی اور پشتون لاپتہ افراد کے لواحقین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے بعد اب ریاست نے سندھ اور پشتونخوا میں بھی لوگوں کو اٹھا کر لاپتہ کرنا شروع کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ آج کسی کا شوہر لاپتہ ہے تو کسی کا بھائی اور کسی کا والد، ریاست اپنے شہریوں کو تحفظ دینے کی بجائے لاپتہ کرتا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اسد بٹ نے لاپتہ افراد کی لواحقین سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اس موقع پر کہا کہ یہ سب اس ملک کے شہری اور آئین کی پاسداری کرنے والے لوگ ہیں۔ غدار وہ لوگ ہیں جو قانون اور آئین کو نہیں مانتے ہیں وہ تو آپ لوگ ہیں جو آئین اور قانون کو پاؤں تلے روند کر لوگوں اغواء کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا اگر لاپتہ افراد مجرم ہیں تو ان کو ریاست بازیاب کرکے عدالتوں میں پیش کرے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور سندھ میں لوگوں کو بات کرنے کی آزادی ہونی چاہیے وہاں زبانوں پر قدغن ہیں۔
ریلی اور مظاہرے میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ، بلوچ سیاسی کارکن عبدالوہاب بلوچ سمیت پشتون اور سندھی سیاسی و انسانی حقوق کے تنظیموں سے وابستہ کارکنوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔