جبری لاپتہ محمد نسیم کی منگیتر کو 11 مارچ کے دن سند ھ کے مرکزی شہر کراچی کے ٹول پلازہ اور گارڈن کے درمیانی سڑک پر گاڑی کے ذریعے دانستہ روڈ حادثہ کا شکار کرکے قتل کرنے کی کوشش کی گئی جس سے ان کے چہرے پر رکشہ کا شیشہ گرنے سے چوٹیں آئیں تاہم وہ اس قاتلانہ حملے میں محفوظ رہی ہیں۔
انھوں نے اس واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا’11 مارچ کا دن تھا،ڈھائی بجے کے قریب میں گھر سے مارکیٹ کی طرف نکلی۔ یہاں سے دو راستے نکلتے ہیں ایک ٹول پلازہ کی طرف دوسرا گارڈن کی طرف۔جب میں رکشہ میں بیٹھی جیسے ہی رکشہ چلنے لگا تو ایک منٹ کے اندر ایک کالی شیشوں والی ویگو گاڑی آئی اور اس نے رکشے کو ٹوکا جس سے رکشہ ہوا میں اچھل کر گر پڑا۔اس کے بعد وہاں لوگ جمع ہونے لگے اور ویگو گاڑی ٹول پلازہ کی طرف نکل گئی۔گاڑی نے نہ کوئی بریک لگائی اور نہ ہی رکی بلکہ پیچھے سے ٹکر مارنے کے فورا بعد وہاں سے نکل پڑی۔‘
’رکشہ والے کے ہاتھوں پر بھی زخم آئے، رکشے کا جو شیشہ تھا اس کے ٹکڑے میری آنکھوں اور چہرے پر لگے۔ میں نے ایک دوسرا رکشہ پکڑا اور ٹراما سینٹر کی چلی گئی۔انھوں نے کہا ’یہ واقعہ جب پیش آیا تو گیارہ مارچ کا دن تھا تب سے میں گھر اور ہسپتال کے درمیان چکر لگا رہی ہوں۔ میرے چہرے پر زخم آئے ہیں اور میرے قریبی لوگ جانتے ہیں کہ میری کیا حالت ہوچکی تھی۔‘
یہ ریاست کے ہتھکنڈے ہیں۔مسنگ پرسنز کے وہ لواحیقن کو جو احتجاج کررہے ہیں،جو کمیشن میں جارہے ہیں، جو عدالت اور جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہورہے ہیں ان کے ساتھ یہ ساری حرکتیں کررہے ہیں۔انھیں یہ لگتا ہے کہ ایسا کرنے سے مسنگ پرسنز کے لواحقین پیچھے ہٹیں گے، ڈر جائیں گے، تو یہ ان کی نادانی ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ ’ہم ان سے نہیں ڈریں گے۔مسنگ پرسنز کا مسئلہ یہ کینسر کی بیماری سے بھی بڑا ہے، خاص کر ہمارے بلوچستان میں۔
انھوں نے جبری گمشدگیوں کی ذمہ دار پاکستانی فوج کو قرار دیتے ہوئے کہا ’یہ تو پورے پاکستان میں ہورہا ہے اور فوج کے ہاتھوں ہورہا ہے۔ ساری دنیا کو پتا ہے کہ فوج کس طرح لوگوں کو یرغمال بنا رہی ہے، کس طرح لوگ اٹھائے جارہے ہیں۔کبھی راشد حسین کی والدہ کو بلانا، اس کو ٹارچر کرنا اور اس سے زبردستی سائن کروانے کی بات کرنا۔میرا یہی ہدف تھا اور میں بار بار اسی بات کو دہرا تی آرہی ہوں کہ محمد نسیم ہے جو ایم آئی کے پاس ہے اگر اس کے اوپر کوئی الزام ہے تو اسے کورٹ میں پیش کرئے اگر وہ بے قصور ہے اسے رہا کیا جائے۔کیوں اس طرح ہمیں اذیتیں دی جارہی ہیں؟‘اسی بات پر 10 مارچ کی رات کے تین بجے کے قریب مجھے کال آئی، مجھے یہی کہا گیا کہ اپنے کیس سے دستبردار ہوجاؤں میں نے جب صاف صاف منع کردیا تو اگلے دن ان لوگوں نے میرے ساتھ یہ واقعہ کیا۔‘
انھوں نے جبری لاپتہ افراد کے حوالے سے حکومتی یقین دہانیوں پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا، ان کا کہنا تھا’جب ہم ڈی چوک گئے تھے وہاں پہ بھی ہم بیٹھے تھے، ہم دھرنا دے رہے تھے وہیں باتیں ہیں، ہر دور میں ہر حکومت اپنی بات کرتی ہے لیکن کوئی بھی اس بات پہ عمل درامد نہیں کرتی صرف لواحقین کو دلاسے دیتے ہیں اور وہاں سے اٹھاتے ہیں۔‘