Site icon News Intervention

مغربی ممالک نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے پر چینی اہلکاروں پر پابندیاں عائد کردیں

مغربی ممالک نے چینی مسلمان اویغور برادری کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزام میں چار چینی اہلکاروں پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔

چین نے سنکیانگ صوبے کے شمال مغربی حصے میں اویغور افراد کو حراستی کیمپوں میں رکھا ہوا ہے اور چین کو اس حوالے سے تشدد، جبری مشقت اور جنسی استحصال کے الزمات کا سامنا ہے۔

پابندیوں کے تحت چار چینی اہلکاروں کے یورپی یونین میں اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں اور اب وہ یورپ کا سفر نہیں کر سکیں گے۔

برطانیہ کے سیکریٹری خارجہ ڈومینک راب نے کہا ہے کہ اویغور مسلمانوں کا استحصال ’ہمارے دور کا انسانی حقوق کا بدترین بحران ہے‘ اور بین الاقوامی برادری ’اس سے منہ نہیں پھیر سکتی‘۔

یہ پابندیاں یورپی یونین، برطانیہ، کینیڈا اور امریکہ کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔

چین نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور ردعمل میں یورپی اہلکاروں پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔

یورپی یونین نے آخری بار انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر چین پر 1989 میں پابندیاں عائد کی تھیں۔ یہ پابندیاں تیان مین سکوئر پر ہونے والی کریک ڈاو¿ن کی بعد لگائے گئی تھیں جس میں جمہوریت کے حامی مظاہرین پر چینی سکیورٹی فورسز نے گولیاں چلائی تھیں۔

یورپی یونین کی پابندیوں میں سنکیانگ کے ان سینیئر عہدیداروں کو نشانہ بنایا گیا ہے جن پر ایغور افراد کے استحصال کا الزام ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ چین نے سنکیانگ کے کیمپوں میں 10 لاکھ سے زیادہ ایغور افراد اور دیگر مسلم اقلیتی لوگوں کو حراست میں رکھا ہوا ہے۔

چینی حکومت پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ اس نے ایغور خواتین کی جبری نس بندی کی ہے اور بچوں کو ان کے اہل خانہ سے الگ کیا ہے۔

میڈیا کی تحقیقات میں زیر حراست افراد پر جبری مشقت، منظم ریپ، جنسی استحصال اور تشدد کے واقعات سامنے آئے ہیں۔

چین نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ کیمپ شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے ’تعلیم نو‘ کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔

یورپی یونین کی پابندیوں کا نشانہ بننے والوں میں سنکیانگ پبلک سکیورٹی بیورو کے ڈائریکٹر شن منگو بھی شامل ہیں۔ یورپی یونین کا کہنا ہے کہ وہ ’انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے ذمہ دار ہیں۔‘

جن افراد پر پابندیاں لگائی گئی ہیں ان میں چین کے سینیئر عہدیدار وانگ منگشن، وانگ ینزینگ اور چین کے سنکیانگ خطے کے سابق سربراہ ڑو ہیلون بھی شامل ہیں۔

سنکیانگ کی ایک کمپنی پروڈکشن اینڈ کنسٹرکشن کور پبلک سکیورٹی بیورو پر بھی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔

چین نے پیر کو کہا ہے کہ یہ پابندیاں ’جھوٹ پر مبنی ہیں اور غلط معلومات کے سوا کچھ نہیں‘۔

چین نے کہا ہے کہ وہ یورپی یونین سے تعلق رکھنے والے 10 افراد اور چار اداروں پر ’چین کی خودمختاری اور مفادات کو شدید نقصان پہنچانے اور بدنیتی کے ساتھ جھوٹ اور غلط معلومات پھیلانے‘ کی وجہ سے پابندی لگا رہا ہے۔

یورپی پارلیمنٹ میں چین کے لیے وفد کی سربراہی کرنے والے جرمن سیاستدان رین ہارڈ بٹیکوفر چین کی جانب سے پابندیوں میں سرفہرست ہیں۔

سنکیانگ میں چین کی پالیسیوں کے ماہر ایڈرین زینز اور سویڈش سکالر جورن جرڈن کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔

چین کی پابندیوں کے تحت یورپی عہدیداروں کو چین میں داخل ہونے یا اس کے ساتھ کاروبار کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ یہ پابندیاں یورپی یونین اور چین کے مابین سفارتی تناو میں اضافے کی علامت ہیں۔

خیال رہے کہ یورپ اور چین تجارت میں اہم شراکت دار ہیں۔

Exit mobile version