Site icon News Intervention

گلگت بلتستان کا سیاسی مستقبل ،مسئلہ جموں کشمیر کی روشنی میں کانفرنس کیوں پاکستان نے منسوخ کرایا

نیوز انٹرونشن خصوصی رپورٹ

گلگت بلتستان اور نام نہاد آزادکشمیر کے عوام کے اکٹھا ہونے سے پاکستان خوفزدہ ہے، آزادی راے کے اظہار پر قدغن نئے تحریک کو جنم دے گی۔

پاکستانی زیر قبضہ گلگت بلتستان میں ایک کانفرنس بعنوان گلگت بلتستان کا سیاسی مستقبل،مسئلہ جموں کشمیر کی روشنی میں 11 اپریل کو ہونا تھا جسے پاکستانی خفیہ اداروں نے ہونے نہیں دیا۔ جس میں تقسیم ریاست جموں کشمیر نا منظور کا موضوع بھی زیر بحث آنا تھا، جبکہ کانفرنس سے پہلے وحدت ریاست جموں کشمیر ریلی بھی تھی جسے مقامی انتظامیہ نے روکھ دیا۔

پاکستانی زیر قبضہ جموں کشمیر اور گلگت بلتستان میں قراقرم نیشنل موومنٹ کے زیر اہتمام 11 اپریل کو ہونے والی کانفرنس کو پاکستان کے خفیہ اداروں نے روک دیا ہے اس کانفرنس میں گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر قبضہ جموں کشمیر کے سیاسی رہنماوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ جس ہوٹل میں کانفرنس کے انتظامات کئے گئے تھے اس کو سیل کر دیا گیا تھاجس کی وجہ سے ہوٹل انتظامیہ نے منتظمین اور مہمانوں سے ہوٹل چھوڑنے کا کہہ دیا تھا جبکہ قراقرم نیشنل موومنٹ کی قیادت نے کانفرنس کا انعقاد گلگت پریس کلب میں کرنے کا فیصلہ کیا۔

مگر گلگت پریس کلب کو بھی سیل کر دیا گیا اور لوگوں کو پریس کلب سے زبردستی باہر نکال دیا گیا، جس پر منتظمین اور مہمان پریس کلب کے باہر جمع ہوئے۔ انہوں نے کہ کہا کہ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ غاصب پاکستان کے خفیہ اداروں کی اس کاروائی کی شدید مذمت کرتی ہے اور اس اقدام کو آذادی اظہارائے کے حق کی شدید خلاف ورزی سمجھتی ہے۔ کشمیری آزادی پسند رہنما عمر حیات کا کہنا تھا کہ اس طرح کا گھناونا اقدام انتہائی قابل مذمت اور قابل نفرت ہے غاصب قوت ہمیشہ اپنا غاصبانہ قبضہ قائم رکھنے کے لئے عوامی آوازوں کو دبانے کی کوشش کرتی ہیں لیکن اس طرح کے اقدامات سے جابر اور غاصب قوت کے خلاف عوام کے دلوں میں نفرت ہی پیدا ہوتی ہے اور تحریکوں کو نئی جہت ملتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے قبل بھی جب کبھی بھی گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر قبضہ جموں کشمیر کے اس حصے کے عوام میں جڑت کی کوئی کوشش ہوئی ہے تو قابض ان دونوں خطوں کے عوام کو مل کر اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنے کے جرم میں کبھی علاقہ بدر کرتی ہے اور کبھی لوگوں کو گرفتار کر کے پس دیوار زنداں کرنیکی کوشش کرتی ہے۔پاکستان بھی گلگت بلتستان اور اپنے زیر انتظام مقبوضہ کشمیر کو اپنے ملک میں
شامل کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔

واضح رہے کہ اس کانفرنس میں گلگت بلتستان سمیت مقبوضہ کشمیر کے آزادی پسند،روشن خیال رہنما مدعو تھے،جو گلگت بلتستان کی موجودہ صورت اور پاکستانی جبری قبضے اور زیر قبضہ کشمیر کی وحدت پر بحث کرنے والے تھے،مگر عین موقع پر ریاستی خفیہ اداروں نے اس کانفرنس کو رکھ دیا۔

یہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قابض پاکستان کسی صورت میں اپنے زیر قبضہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کو اکٹھا ہونے نہیں دیتی جسکی خاص وجہ اپنے قبضہ کو برقرار رکھنا ہے۔نام نہاد آزاد کشمیر جو دراصل پاکستانی فوج کی کنٹرول میں ہے دنیا کا واحد آزاد ریاست ہے جسکے پاس پولیس تک کو کنٹرول کرنے کی اختیارات نہیں۔ایسے میں کشمیر کی آزادی کی بات کرنے والے تنظیموں اور رہنماؤں کو یا تو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے یا مار دیا جاتا ہے۔

جب بھی پاکستانی زیر قبضہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے رہنما مل کر اس حوالے کوئی کانفرنس یا پروگرام کرتے ہیں یا مشترکہ مسائل کے بارے کوئی پروگرام کرنا چاہتے ہیں انکو پاکستانی خفیہ اداروں کے لوگ روکھ لیتے ہیں۔

گلگت بلتستان اور پاکستانی زیر قبضہ کشمیر میں ایک بھی عوامی نمائندہ نہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ سب پاکستانی فوج و خفیہ اداروں کے سفید لباس میں ایجنٹ ہیں۔

Exit mobile version