نیوز انٹرونشن خصوصی رپورٹ
سال2020 میں مقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی بربریت عروج پر رہی، 682 فوجی آپریشنز میں،200فرزندانِ بلوچستان قتل کیے گئے، 705 افراد لاپتہ کیے گئے جبکہ200افرادقتل،1100سے زائد گھر نذر آتش کیے گئے
سال2020 بلوچ قومی تاریخ میں ایک کٹھن سال ثابت ہوا،جہاں پاکستانی فورسز کی زمینی و فضائی خونی فوجی آپریشنز2020 کی آخری سورج غروب ہونے کے وقت بھی جاری تھیں۔
مقبوضہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں اورپاکستانی فوج کی جنگی جرائم کی کارروائیوں کے اعدادوشمار ادارہ نے مرتب کئے جو بلوچستان کے سرکاری پرنٹ میڈیا، آن لائن وسوشل میڈیااورمقامی افرادسے حاصل کئے گئے ہیں اور مصدقہ ہیں۔
پاکستانی فوج نے سال بھرمیں مقبوضہ بلوچستان میں 682 آپریشنز کیے، اور اسی سال705 بلوچ سیکورٹی فورسزکے ہاتھوں لاپتہ ہوئے۔
جبکہ 200 سو نعشیں برآمد ہوئیں۔اور122 بلوچ فرزند فوجی آپریشنز،خفیہ اداروں اورریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ اعدادوشمار کے مطابق60 لاشوں کے محرکات سامنے نہیں آ سکے اور18 نعشوں کی شناخت نہ ہو سکی۔
دوران آپریشن سال2020 میں پاکستانی فوج نے2200 سے زائد گھروں میں لوٹ مار کرتے ہوئے تمام اشیاء کا صفایا کیا اور1100 سے زائد گھروں کو نذر آتش کیا۔
سوشل میڈیا اور بلوچ سورسز سے دستیاب اعداد وشمار کے مطابق پاکستانی فورسز نے مقبوضہ بلوچستان میں 60 نئی چوکیاں بھی قائم کیں۔اوردوران آپریشنز 4 ہزار سے زائد مویشیوں کو مارا گیا اور 2 ہزار سے زائد کو فورسزمال غنیمت سمجھ کر اپنے ساتھ لے گئے۔
اسی سال پاکستانی فوج نے بلوچستان بھر کے قدرتی جنگلات کو نذر آتش کرنے کا ایک نیا سلسلہ شروع کیاجن میں دشت،بلیدہ،پروم،زامران،مند،جھاؤ گچک،مشکے اوربولان کے علاقے شامل تھے۔ریاستی فورسز کے کارندوں نے ضلع کیچ میں تحصیل بلیدہ میں 3 اسکولز بھی نذر آتش کئے۔
سال 2020 میں 106 لاپتہ افرادر فورسز کی عقوبت خانوں سے بازیاب ہوئے جن میں بیشتر وہ تھے جن کو اسی سال کے مختلف مہینوں میں لاپتہ کیا گیا تھا۔ مگر دنیا کی کسی انسانی حقوق کے ادارے نے یہ جانے کی کوشش نہیں کی کہ یہ لاپتہ افراد کہاں تھے،کسی نے اس حوالے پاکستانی فورسز سے سوال کرنے کی زہمت نہیں کی۔جو یقینا انسانی حقوق کے اداروں اور میڈیا کے لیے شرم کی بات ہے۔
سال2020 اپنی طلوع سے غروب ہونے تک بلوچ قوم کے لیے تباہ کن رہی،جہاں سال کی شروعات ریاستی بمباری و آپریشنز سے ہوتا ہوا سویڈن میں ساجد بلوچ کا قتل اور2020 کا خونی سورج کریمہ بلوچ کی شہادت بلوچ قومی تاریخ میں ایک اور خونی سال کا اضافہ کر گیا۔
ساجد بلوچ کی سویڈن میں گمشدگی اور قتل کے بعد آزادی پسند رہنما بانک کریمہ بلوچ کی کینیڈا میں قتل نے بلوچ قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔
کریمہ بلوچ چونکہ ایک موثر آواز تھیں اس لیے ان کو خاص و منظم حکمت عملی کے تحت شہید کہا گیا،جس پر مقبوضہ بلوچستان کا شاید ہی کوئی علاقہ گلی،کوچہ،گاؤں ہو جہاں احتجاج نہ ہوا ہو۔بانک کریمہ بلوچ نے بہت کم مدت میں انقلاب کی بلندیوں کو چھوا،اور دن رات محنت کی،انکی سرزمین سے عشق نے ان جومادر وطن کی بیٹی بنا دیا اور وہ درجہ ملا کہ شاید کسی نے خواب میں بھی نہ سوچا ہو گا۔
کریمہ بلوچ ایک انقلاب ثابت ہوئی اور انکی شہادت پر رد عمل نے دنیا اور قاتل ریاست پاکستان پر واضح کر دیا کہ کریمہ ایک سوچ و فکر کا نام ہے۔
گذشتہ دو عشروں میں بلوچستان میں پیہم جاری مظالم میں ہر گزرتے ماہ و سال کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے پاکستان کے بلوچ قومی نسل کشی کے عزائم کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کوئی علاقہ ایسا باقی نہیں رہا کہ جس پر آتش و آہن نہ برسی ہو، لوگ اٹھائے نہ گئے ہوں، گھر نذر آتش نہیں کئے گئے ہوں۔ در حقیقت بلوچستان میں کوئی علاقہ اس آگ سے محفوظ نہیں ہے۔ روزانہ کی بنیادوں پر فوج او ر خفیہ ادارے لوگوں کو اٹھا کر لاپتہ کر رہے ہیں۔ گھر بار، مال مویشی لوٹے جا رہے ہیں۔ ریاستی افواج، خفیہ ادارے اور فوج کے متوازی دہشت گرد ڈیتھ سکواڈ بلوچ قوم کے لئے اپنی ہی سرزمین پر زندگی کو دوزخ بناچکے ہیں۔ لوگوں کی نظروں کے سامنے ان کے جوان بچے اٹھائے جاتے ہیں اورلوگ بے بسی کا عملی نمونہ بن کر سالوں سے احتجاجی جلسوں اور بھوک ہڑتالی کیمپوں میں اپنے پیاروں کی آس لئے نظر آتے
ہیں لیکن شاذہی کسی کے آنکھ کا تارا بازیاب ہوتا ہے۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوچکا ہے کہ پاکستانی بربریت سے بلوچستان میں ایک انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ متاثرہ خاندان ناقابل بیان صورت حال سے دوچار ہیں۔ یہ صورت حال روز بروز گھمبیر ہو رہا ہے۔
لوگوں کو لاپتہ رکھنا سنگین جرم ہے۔ دنیا کا کوئی بھی قانون کسی شخص کو لاپتہ رکھنے کی اجازت نہیں دیتا ہے لیکن بلوچستان میں یہ غیر انسانی عمل اپنی عروج پر ہے۔ یہ واضح جنگی جرم ہے۔ اس جرم پر پاکستان کو کٹہرے میں لانا چاہئے تھا لیکن لوگوں کی جذبات، مجبوریوں اورانسانی المیے کی قیمت پر پاکستان کو اس جرم سے بری الذمہ قرار دیا جا رہا ہے۔
سال2020 میں جہاں ملک نازسمیت درجنوں بلوچ فرزند شہید کیے گئے،واقعہ ڈنک ضلع کیچ کی بلوچ ماں شہید ملک نازاورننھی برمش کے بہتے لہو نے بلوچستان کو ایک مرتبہ عالمی توجہ کا مرکز بنادیا ہے۔ اسی طرح حیات بلوچ کو قابض فوج نے انکے والدین کے سامنے گھسیٹ کر یکے بعد دیگرے 8 گولیوں سے بھوند ڈالا۔سوشل میڈیا میں وائرل شہید حیات بلوچ کے لاش کے ساتھ انکے والدین کی فوٹو نے پورے انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا مگر قابض او ر انسانی حقوق کے اداروں کو ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑا۔
حیات بلوچ کی لاش کے سراہنے بیٹے والدین کی تصویر نے شاید عرش کو ہلا کر رکھ دیا،آسمان کی جانب ماں کی فریاد کرتی آہیں،باپ کے اپنے پیارے بیٹے کے ماتھے کو چھومنے نے پورے بلوچ قوم کو جھنجوڑ کر رکھنے کے ساتھ،حیات نے اپنی لہو سے قوم کو پیغام دیا کہ تم غلام ہو! صرف غلام ہو۔
واضع رہے کہ بلوچستان میں میڈیا پر پاکستانی اسٹبلشمنٹ کی کنٹرول کے باعث پاکستانی فوج مکمل طور پر بے لگام ہوچکی ہے اور وہ کسی بھی عالمی انسانی و جنگی قوانین کو خاطر میں لائے بغیر جنگی جرائم پر اتر آئی ہے۔