سوشل میڈیا میں ایک خبر سامنے آئی کہ ایک بلوچ باپ نے خود کشی کر لی ہے،خود کشی کی خبریں پاکستان جیسے کمزور معاشی و بدامن ملک میں روزز کا معمول ہیں،خاص کر پنجاب میں خودکشی،کمسن بچوں،بچیوں کو اغوا کر کے جنسی زیادتی کے بعد قتل کرنا،یا قبروں سے لاشوں کو نکال کر انکے کے ساتھ بدفعلی کرنا،غالبہ21 مئی کو پنجاب کے قصور میں ایک ایسا واقعہ بھی پیش آیا،کہنے کا مطلب ہے کہ پنجاب میں خاص کر اس قسم کے واقعات کا رونما ہونا روزکی بات ہے جس سے سمجھنے میں آسانی ہو جاتا ہے کہ پاکستان کے رکھوالے،اسلام کے رکھوالوں کی سماجی و انسانی حیثیت وا ہمیت کیا ہے،یا ایسے معاشرے میں انسانی حقدار کو کیسے جانچا جاتا ہے۔
مگر بلوچستان میں شاذو نادر ہی کوئی ایسا واقع سامنے آتا ہے،اس قوم میں خود کشی یا ایسے سماجی برائی نہ ہونے کے برابر ہیں،البتہ گزشتہ ایک سال سے کچھ کیسز سامنے آئے ہیں کہ کچھ نوجوانوں نے خود کشی کیے،البتہ انکے اسباب ایسے سماجی برائیاں نہیں تھے۔بلوچستان کے ضلع آواران جو موجودہ بلوچ آزادی کی جہد میں ایک کلیدی اہمیت رکھتی ہے جس میں سے سب سے بڑی اہمیت کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا تعلق اسی ضلع کے تحصیل مشکے سے ہے،ہاں البتہ اس دور کے بلوچ جہد میں جہاں پورا بلوچستان متاثر ہے ضلع آواران سے لاکھ سے زائد افراد کی نقل مکانی سمیت سینکڑوں لوگ فورسز نے قتل کیے اور نہ جانے کتنے پابند سلاسل ہیں۔
آواران میں بلوچ باپ کی خود کشی کوئی تنگ دستی،غریبی،بے روزگاری کا سبب نہیں تھی بلکہ ہمارے اسلامی فوج جو خود کو محافظ اسلام کہلاتی ہے،یعنی اسلامی جموریہ پاکستان کی فوج کی تشدد بے عزتی سے بچنے کے لیے اور بلوچ قومی وقار کو سرنگوں نہ ہونے دینے کی خاطر اپنی جان دے دی،یقینا یہ خود کشی نہیں اگر اسے عدالت اور انصاف کے ترازو سے دیکھا جائے تو یہ قتل ہے،نہ صرف ایک باپ کا،ایک خاندان کا بلکہ انسانیت اور اسلام کا قتل ہے۔
مظلوم بلوچ باپ نے خود کشی اس لیے کی کہ پاکستانی فوجی اہلکار بار بار اسے آرمی کیمپ بلا کر تشدد کا نشانہ بناتے اور اسکی بیٹی کو آرمی کیمپ میں پیش کرنے کا کہتے،جس دن غیرت مند بلوچ باپ نے خود کو اس عزاب سے آزاد کیا اس سے ایک روز قبل غالبہ اسے اسکے بیٹے سمیت آرمی کیمپ بلایا گیا،بلوچ سوشل ایکٹیوٹس کے بہ قول انکو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اگلے روز بیٹی سمیت پیش ہونے کا کہہ کر اسلامی فوج نے اسے چھوڑ دیا۔مگر بلوچ روایات سے ناواقف پنجابی اسلامی فوج بھول گئی کہ یہ رنجیت کی اولاد نہیں کہ ہر قابض کے آنے کے ساتھ ہی دھوتی پہن کر ڈھول باجے کے ساتھ اس کا استقبال کریں اور اپنی غیرت انکے حوالے کریں،شاید اس فوج کے صاحبوں کو پتہ نہیں تھا مگر بلوچ با پ نے قومی وقار و عزت کی خاطر اپنی جان قربان کر دی اور شواہد ہیں کہ مرنے سے پہلے اس نے پاکستانی فوج کو پیغام بھجوایا کہ آج جاؤ میری لاش تمھارا انتظار کر رہی ہے۔ ایک نہتے بلوچ کا قتل نما خود کشی پاکستانی کی بڑے چھوٹے صحافیوں،چینلوں،اخباروں میں ایک چھوٹی سی خبر بھی نہیں بن سکا وہیں انسانی حقوق کے ادارے بھی اس خوف میں چُپ ہو گئے کہیں انصاف کی مانگ کرنے پر ہمیں بھی اپنی خواتین و بچیوں کو پیش کرنے کا نہ کہا جائے اور یقینا وہ بلوچ باپ جیسا عمل کرنے کی روایات سے بھی عاری ہیں،۔
بلوچ باپ کا قصور یہی تھا کہ اسکی بیٹی کا رشتہ ایک بلوچ آزادی پسند جہد کار کے ساتھ ہوا تھا اور ہماری دلیر،ایٹمی طاقت،جنگی ہتھیاروں سے لیس اسلامی فوج ایک بلوچ جہد کار جنکو بلوچ لفظ عام میں سرمچار کہتے ہیں یا فریڈم فائٹرز کے سامنے ڈھیر ہو چکے تھے اور اس فوج نے پھر بنگلہ دیش والی تاریخ دھرائی مگر اس دفعہ مقابلہ تاریخی حوالے ایک جنگجو قوم بلوچ سے ہے،بلوچوں کے اس سفر کی منزل کیا ہو گی پتہ نہیں، مگر تاریخ کے اوراق اگر ہم پلٹ کر دیکھیں تو یہ قوم کسی کے سامنے جھکی نہیں ہے اور اب تو اکیسویں صدی اور لڑائی بھی قومی شناخت کی۔
اگر ہم باریک بینی سے سوشل میڈیا پر بلوچوں کے پوسٹ،کمنٹس کا جائزہ لیں، تو بلوچستان کے حالات کا اندازہ لگاناناممکن نہیں ہے، پاکستان کے اس صوبے میں میڈیا،انسانی حقوق کی تنظیموں کے داخلے پر پابندی ہے یا ہم کہ سکتے ہیں کہ نو گو ایریا بنا دیا گیا ہے۔
آج کے جدید دور میں ٹیکنالوجی کی وجہ سے وہاں کے حالات کچھ ہی سہی مگر رپورٹ ہوتے اور سامنے آ رہے ہیں، نور جان کی خودکشی،ایک تازہ مثال ہے۔
بلوچستان کا ضلع کیچ جو سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک کا آبائی علاقہ ہے،نوٹ، (اب پتہ نہیں وہ وہاں رہتا ہے کہ نہیں) میں ایک دس سالہ بچے کو ہماری اسلامی فوج فوج نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا،اسی طرح اس سے قبل حیات بلوچ جو ایک طالب علم تھا فوج نے اسکی ماں کے سامنے گولیوں سے بھوند ڈالا،ننھی برمش بلوچ کے ماں کو قتل کرنے کے ساتھ اسے زخمی کر دیا گیا،مگر بلوچ کی سیاست کرنے والے ڈاکٹر مالک صاحب سمیت بیشتر پاکستانی سیاست کے ماننے والے خاموش نظر آئے، پنجاب،سندھ،خیبر پختون خواہ سب خاموش ماسوائے،پشتون تحفظ موؤمنٹ کے۔
آج مقامی بلوچ سیاست دان اپنی کرسیوں کی خاطر آندھے،گھونگے ہونے کے ساتھ رنجیت کی نسل سی لگنے لگے ہیں،ان واقعات کے بعد سوشل میڈیا میں بلوچ ایکٹیوٹس کا جائزہ لیا جائے تو پتہ لگتا ہے کہ بلوچ کے ساتھ یہ مظالم روز کا معمول ہیں اور یہ سب کوئی اسرائیلی فوج نہیں بلکہ دنیا میں خود کو اسلام کی محافظ کہنے والی پاکستان کی فوج کر رہی ہے۔
شرمندگی تو اس بات پر ہوتی ہے کہ مسجد اقصیٰ کے واقع پر اسلام،اسلام اور جہاد کا نعرہ لگانے والے،خیبر پختونخواہ،بلوچستان میں ہونے والے فوجی مظالم پر خاموش ہیں،کیا مظلوم بلوچ،سندھی،پشتون یا خود پنجابی ہو اگر اسکے خلاف ہماری اسلامی فوج ظلم کرئے تو کیا ایسے فوج کے خلاف جہاد کا فتوی نہیں بنتا ہے۔فلسطین کے معاملے پر چھلانے والے ذرہ اپنے دامن،گھر میں دیکھیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے،بلوچستان میں 1948 سے فوجی جبر جاری ہے اور اس میں گزشتہ پندرہ سالوں میں ریکارڈ تیزی آئی ہے،اسلام کے نام پر پشتون کی نسلوں کو تباہ کیا گیا،آج پشتون تحفظ موؤمنٹ کی سیاسی جہد اس حوالے ہمارے سامنے ہے،اسی طرح سندھ کی صورت حال بھی کچھ صیح نہیں اور تو چھوڑیں خود پنجاب میں ایک بڑی آبادی کو اسلام کے نام پر استعمال کیا جا رہا ہے،خاص کر غریب،بے روزگار طبقے کو۔
ہماری نام نہاد ریاست مدینہ میں فلسطین کے حق میں جہاد کا فتوی دیا جاتا ہے،مگر چین میں لاکھوں ایغور مسلمانوں پر ہونے والی مظالم جو رپورٹس کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی تشدد ہیں اس پر ریاست مدینہ لب کشائی بھی گناہ سمجھتی ہے۔
ہندوستان کے بطن سے جنم لینے والا پاکستان ہندوستان میں مسلمانوں کے معاملات میں مداخلت کرتا،دونوں اطراف کے کشمیر میں جہادیوں کے ذریعے دہشت گردی کراتا ہے مگر اُسکی اپنی اسلامی فوج بلوچستان میں قران شریف کو جلاتی ہے،مسجدوں،اسکولوں کو آرمی کیمپ میں تبدیل کر کے بچوں،لڑکیوں،اُستانیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتی ہے تو یہ سب جائز ہے۔سمجھ نہیں آتا کہ ہم کون سے اسلام کے پیروکار ہیں۔کیا ایسا اسلام اس دنیا میں عملا مذہبی حوالے وجود رکھتی ہے کہ تم غیر مذہب کے خلاف بندوق اُٹھاؤ جس سے تمھارا کوئی سرحدی لین دین نہیں،مگر تم اپنی مسلمان عوام پر ظلم کرو،جس قران شریف کو تم مقدس مانتے ہو اسکو ہی جلا ڈالا،اپنے لوگوں کو زیر حراست قتل کر سالوں سال لاپتہ کرو،،انکے ساتھ جنسی زیادتی کرو،ان پر بم برساؤ وہ بھی صرف اس لیے کہ وہ اپنا حق مانگتے ہو،یا آزادی اظہار پر یقین رکھتے ہوں،۔