پاکستانی فوج کے کرپشن کا ایک اور کیس منظر عام پر آ گیا،کور کمانڈر گوجرانوالہ لیفٹینٹ جنرل عاصم منیر نے ماسٹر ٹائلز کے سی او سے90 کروڑ بھتہ مانگ لیا ہے۔
پاکستان کے شہر گوجرانوالہ سے اطلاعات کے مطابق 90 کروڑ روپے بھتہ مانگنے پر ماسٹر ٹائلز کے سی ای او شیخ محمود اقبال نے کور کمانڈر گوجرانوالہ لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر کے خلاف وزیراعظم عمران خان نیازی کو خط لکھا ہے۔ 5 جون 2021،کوسی ای او آفس ہیڈکوارٹرز ماسٹر ٹائلز،حفیظہ طفیل بلڈنگ عطاوہ،جی ٹی روڈ گوجرانوالہ 52250 سے جاری کردہ خط میں لکھا گیا ہے کہ آج کل جو صاحب کور کمانڈر گوجرانوالہ تعینات ہیں انکا نام لیفٹینٹ جنرل حافظ عاصم منیر ہے۔اس پوسٹنگ سے پہلے یہ ڈی جی ملٹری انٹیلیجنس اور ڈی جی آئی ایس آئی بھی رہ چکے ہیں،مگر جب سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے میجر جنرل فیض حمید کے خلاف فیض آباد دھرنا ماسٹرمائینڈ کرنے کے جرم میں کاروائی کا حکم دیا تو عاصم منیر کو آٹھ ماہ بعد ہی عہدے سے ہٹا کر فیض کو لیفٹننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دیکر ڈی جی آئی ایس آئی بنا دیا گیا اور شاید تب ہی سے عاصم ایک زخمی سانپ کی مانند غصے سے تلملا رہا ہے۔بطور جرنیل اس کے سامنے اب صرف ریٹائرمنٹ ہے اور اس نے اس عرصے کو فوج کے علاوہ سویلین ذرائع سے بھی مالی منافعت کا ذریعہ بنانے کا تہیہ کر لیا ہے۔
اپنے اسٹاف آفیسر کرنل احتشام کے ہاتھ پچھلی جمعرات کو صبح پیغام پہنچایا کہ میں آپ کے ساتھ لنچ کرنا چاہتا ہوں۔میں جاپانی امپورٹرز کی میٹنگ چھوڑ کر کینٹ ملنے گیا تو مسکراتے ہوئے استقبال کیا۔گپ شپ کا دور چلا اور اسکے ساتھ اس نے سالمن فش اور اولیو آئلڈ بروکلی سے تواضع کی۔بعدازاں بلیک کافی کیساتھ کیوبن سگار سلگا کر کہنے لگا کہ اسے پتہ چلا ہے کہ ہماری باتھ روم ٹائلز کی ایگزیکٹو رینج واخان کی افغان پٹی کے راستے تاجکستان اور ازبکستان کی وسط ایشیائی ریاستوں میں سمگل ہو رہی ہے جس سے قومی خزانے کو ٹیکس کی مد میں اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
یہ سب مجھے پھنسانے کی سازش تھی اور میرے دو ٹرکس پشاور سے پکڑ کر افغان بارڈر پر قبضے میں لینے کی جعلی کاروائی ویسے ہی کی گئی تھی جیسے آپ نے اینٹی نارکوٹکس فورس کو کہہ کر رانا ثنا اللہ کی گاڑی سے بیس کلو جعلی ہیروئن برامد کرنے کی کاروائی کی تھی۔اس کے بعد عاصم کہنے لگا کہ جاسوسی،سیاست اور کاروبار میں حقیقت سے زیادہ پرسیپشن اہم ہوتی ہے اور اگر یہ پرسیپشن جڑ پکڑ گئی کہ ماسٹر ٹائلز والے سمگلنگ میں ملوث ہیں تو سٹاک مارکیٹ میں ہماری شئیر پرائس گر جائیگی۔میں نے عاصم سے کپکپاتے لہجے میں پوچھا کہ وہ مجھ سے چاہتا کیا ہے۔تب ساری دنیا کی خباثت اسکی چھوٹی سی گندمی آنکھوں میں عود آئی۔
اسکے بعدکہنے لگا ستاون لاکھ انہتر ہزار دو سو تیس ڈالر اس کے مکاوْ بینک اکاوْنٹ میں دبئی آفس سے ٹرانسفر کروا دوں تو وہ مجھے اصل میں وسط ایشیا سمگلنگ کرنے میں مدد دے گا کیونکہ کور کمانڈر پشاور اس کا بیچ میٹ اور روم میٹ رہ چکا ہے۔پاکستانی روپوں میں یہ رقم تقریباً نوے کروڑ روپے بنتی ہے۔کاروبار بچانے کے لئے میں یہ رقم تیاگ بھی دوں مگر آخر کب تک ہم ان سنپولیوں کو دودھ پلاتے رہینگے۔یہ ہمارے تنخواہ دار ملازم کبھی آئین کو روندتے ہیں کبھی اسد علی طور اور مطیع اللہ جان پر تشدد کرتے ہیں کبھی پاک ایران بارڈر پر سمگلنگ کے ذریعے پاپا جونز بزنس ایمپائر کھڑی کر لیتے ہیں اگر آپ میری داد رسی کر سکیں تو ٹھیک وگرنہ میں اپنا سارا سیٹ اپ ڈھاکہ شفٹ کر دونگا اور آپ کو ایک کروڑ کی جگہ ایک کروڑ پانچ ہزار نوکریوں کا انتظام کرنا پڑے گا۔اس واقعے کے بعد میں نے جانا ہے کہ انسان کو وطن سے بھی زیادہ اپنی عزت نفس عزیز ہوتی ہے اور ان چھوٹی خبیث آنکھوں میں لہراتی شیطانیت اور طاقت کا غرور مجھے رات کو بھی نیند سے غصے میں جگا دیتا ہے اور مجھے پانی کے ساتھ ایسپرین کھانی پڑتی ہے۔