پاکستان کی فوج اور اانٹیلی جنس قیادت نے قومی سلامتی کے امور پرپاکستان کی ارکان پارلیمنٹ کویکم جولائی کو پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں ایک خفیہ بریفنگ دی ہے۔
جس کاایجنڈا افغانستان، کشمیر اورپاکستان کی اندرونی سیکورٹی صورتحال تھا،بلوچستان اور پشتون تھے، لیکن اس بریفنگ میں صرف افغانستان کی موجودہ صورتحال اور پاکستان کی پوزیشن زیر بحث رہا جبکہ باقی دوا یجنڈے کشمیر اور انٹرنل صورتحال پرعسکری قیادت نے کچھ نہیں کہا اورارکان پارلیمنٹ کو اس طرح کی مزید بریفنگ سیشن کی یقین دہانی کی گئی۔
اجلاس کومکمل خفیہ رکھا گیا اور صحافیوں کو اندر جانے نہیں دیا گیا لیکن اس ان کیمرہ اور خفیہ بریفنگ اجلاس کے بہت سے اہم پہلو نکل کر سامنے آگئے۔جو فوجی قیادت کے توقع کے بر خلاف تھے۔
اس بریفنگ اجلاس میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اورانٹرسروسز انٹیلی جنس ایجنسی (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے شرکت کی۔
ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے ارکان پارلیمنٹ کو بریفنگ دی جبکہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سوالات سیشن میں ارکان پارلیمنٹیرینز کے سوالات کے جوابات دیئے۔
اس اجلاس میں حکومتی اور اپوزیشن بینچز سے اہم شخصیات اور وزارائے اعلیٰ نے شرکت کی جبکہ وزیر اعظم عمران خان شریک نہیں تھے جس کو اپوزیشن ارکان نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
مصدقہ ذرائع بتاتے ہیں کہ اجلاس شروع ہونے سے قبل سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ نے تمام ارکان پارلیمنٹ کے موبائل فونز ضبط کئے تاکہ بریفنگ خفیہ رہے اور کسی قسم کا کوئی اہم بات لیک نہ ہوجائے۔
میڈیا ذرائع کے مطابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے علاقائی ماحول اور ممکنہ خطرات، غیر ملکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال اورپاکستان کی پوزیشن،افغان امن مذاکرات میں جمود، کشمیر میں ہونے والی پیش رفتوں اور امریکا کی جانب سے چین کو قابو کرنے کی کوششوں پر پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کو بریفنگ دی۔
شرکا کو بتایا گیا کہ بیرونی طاقتیں پاکستان پر دباؤ ڈالنا شروع کرچکی ہیں، ملک کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے 27 میں سے 26 نکات پر عملدرآمد کے باوجود نہ صرف گرے لسٹ میں رکھا گیا بلکہ منزلا بھی تبدیل کردی گئی۔
اسلام آباد کو اب کہا گیا ہے کہ ایشیا پیسیفک گروہ کی جانب سے علیحدہ سے دیے گئے 6 نکاتی پلان پر اضافی عملدرآمد کیا جائے۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ بیرونی طاقتوں نے پراکسیز کو بھی متحرک کردیا ہے جو لاہور میں ہوئے دھماکے اور بلوچستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی سے ظاہر ہے۔ نوٹ۔ دراصل بلوچستان کی آزادی کی جنگ کو پاکستان دہشت گردی کہتا ہے۔
ساتھ ہی کہا گیا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) بھی آئندہ آنے والے دنوں میں پاکستان پر دباؤ بڑھا سکتا ہے اور پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں کو ہدف بنا سکتا ہے، اس بات کا بھی خدشہ ظاہر کیا گیا کہ پاکستان سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ڈرا کو بھگانے کی کوششیں بھی ہوسکتی ہیں۔
سیاسی قیادت کو بتایا گیا کہ افغانستان، کشمیر اور ملک کی اندرونی سیکورٹی صورتحال کے پیشِ نظر قومی مفاد کے امور پر اتفاق رائے برقرار رکھنا ضروری ہے اور سیاست کو گورننس اور اس سے متعلق سیاسی معاملات تک ہی محدود رہنا چاہیے۔
واضع رہے کہ فوجی قیادت اپنی بریفنگ میں سیاسی قیادت کو تو یہ مشورہ دیتا رہا کہ وہ خود کو سیاسی معاملات تک محدود رکھیں لیکن فوجی قیادت خوداپنی پیشہ وارانہ کاموں کوچھوڑکرمکمل طور پرسیاست میں ملوث ہے۔جس کی واضع مثال موجودہ پی ٹی آئی کی حکومت ہے جو فوجی قیادت کا بیس سالہ منصوبہ تھا تاکہ وہ عمران خان کی شکل میں براہ راست پاکستان کی سول حکومت اور فوج دونوں کو چلائے۔لیکن فوجی قیادت کی اندرون وبیرون غلط فیصلوں و بچکانہ سفارتکاری سے پاکستان کی معاشی و سیکورٹی پوزیشن مکمل طور پر خراب ہوگئی۔مہنگائی وبیروزگاری بڑھ گئی اورعوام کو یہ ادراک ہوگیا کہ فوج نے انجینئرڈ الیکشن کرکے عمران خان کو ان پر مسلط کیاجس کی وجہ سے فوج کیخلاف عوام میں غم و غصہ بڑھ گیا۔
اس خفیہ بریفنگ میں فوجی قیادت کو شدید تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔اورفوجی قیادت و پارلیمنٹرین کے درمیان مکالمہ بازی بھی ہوا جس میں غصہ وتلخی دیکھنے میں آیا۔
ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمیدنے شرکاء کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں جو طالبان ہیں ان کا کنٹرول وہاں سے بڑھتا جارہا ہے۔اور وہ تیزی سے گراؤنڈ پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ اور جیسے جیسے افغانستان میں انکا کنٹرول بڑھتا جارہا ہے ویسے ویسے پاکستان کا ان پر کنٹرول ختم ہوتا جارہا ہے۔اور اب وہ ہماری بات نہیں مان رہے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ ہم نے طالبان کے لئے سب کچھ کیا، انہیں مکمل سہولیات فراہم کیں۔امریکا سے رابطہ کرواہا،لیکن اب وہ ہماری بات نہیں مان رہے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے اس بریفنگ کے دوران ارکان پارلیمنٹ سے ایک سوال پوچھا کہ
”اگرافغان طالبان بندوق کی زور پر کابل پر قبضہ کرلیں توکیا پاکستان کو اس قبضے یا اس کی حکومت کو تسلیم کرلینا چاہیے؟
جس پر تمام ارکان پارلیمنٹ بالخصوص شہباز شریف، بلاول بھٹوزرداری اور دیگر نے باری باری کھڑے ہوکر کہا کہ
”ہمیں کسی بھی صورت میں ایسی حکومت کی تسلیم نہیں کرنا چاہیے جو بندوق کے زور پر آئے گی۔جو عوام کی منتخب حکومت ہوگی اورعوام کی حمایت سے آئے گی ہمیں اس کو ماننا چاہیے۔“
بعض تجزیہ کار وں کے مطابق ڈی جی آئی ایس آئی کے کابل پر طالبان کے قبضے کو تسلیم کرنے کا سوال اصل میں اس خفیہ بریفنگ کے انعقاد کا اصل مدعا ہے۔کیونکہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ پاک فوج افغان طالبان کو کابل پر قبضے کیلئے مکمل طور پر سپورٹ کررہی ہے اور امریکا کویہ سب پتا ہے اسی لئے امریکی صدر جوبائیڈن نے دوٹوک الفاظ میں پاکستان کو کہا ہے کہ وہ فیصلہ کرے چین کے ساتھ رہے گایا امریکا کے۔
ڈی جی آئی ایس آئی نے اپنی جاری بریفنگ میں کہا کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے کہا کہ چین اور امریکا کے درمیان جو کشمکش ہے اب پاکستان کو اپنی پوزیشن طے کرنی ہوگی کہ ہم کہاں پر کھڑے ہیں؟۔ کیوں کہ ہم پر امریکا کا پریشر ہے کہ ہم سی پیک کو رول بیک کریں۔
اس پر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے رائے دی کہ پاکستان کو مکمل نیوٹرل ہونا چاہیے لیکن حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ اس پر ہم نیوٹرل نہیں رہ سکیں گے ہمیں پوزیشن تو لینی پڑے گی۔
اس خفیہ اجلاس میں جب ڈی جی آئی ایس آئی کی بریفنگ ختم ہوئی تو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ روسٹروم پر آئے اورکہا کہ میں پہلے دن سے ایک بات افغان حکومت کو بھی کنوے کررہا ہوں کہ ہم افغانستان میں امن چاہتے ہیں اور افغانستان کے مسئلے کا حل چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں نے یہ بات نہ صرف افغانستان میں جاکر افغان قیادت کو بار بار بتائی بلکہ میں نے پاکستان کی سیاسی قیادت کو بھی بتائی۔
آرمی چیف نے شرکاء میں بیٹھے پشتون تحفظ موومنٹ کے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کی طرف خاص اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے محسن داوڑ اور منظور پشتین کو اپنے گھر آرمی ہاؤس میں بلاکربتایا کہ ہم افغانستان کے مسئلے کا حل اور امن چاہتے ہیں، سٹیلمنٹ چاہتے ہیں۔
آرمی چیف جنرل قمر جاویدباجوہ کے اس بات پر پی ٹی ایم کے رکن اسمبلی محسن داوڑنے کھڑے ہوکر کہا کہ جب آپ نے ہمارا ذکر کیا ہے تومیں اس سلسلے میں بات کروں گا۔
محسن داوڑ نے آرمی چیف سے مخاطب ہوکر کہا کہ بے شک ہمیں گھر بلا کر یہ کہا گیا کہ ہم افغانستان سے سیٹلمنٹ چاہتے ہیں۔ لیکن جب ہم گراؤنڈ میں دیکھتے ہیں تو ہمیں نہیں لگتا کہ حالات ایسے ہیں۔
محسن داوڑ نے پاکستان کے کچھ علاقوں کے نام بتاتے ہوئے کہا کہ ان علاقوں میں نہ صرف افغان طالبان کے فیملیز ہیں بلکہ وہ خود بھی موجود ہیں۔اور وہ وہاں سے افغانستان جاتے ہیں، حملے کرتے ہیں، پھرواپس آجاتے ہیں۔تو اس پر افغان حکومت کا ہم پر کس طرح ٹرسٹ ہوگا۔؟
محسن داوڑ نے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمیدکی بریفنگ دوران اس بات پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ جنرل فیض حمید کواعتراض ہے کہ پی ٹی ایم والے خودکو افغان کہتے ہیں۔
محسن داوڑ نے کہا کہ یہ ہمارا قومی مسئلہ ہے، ہم جتنے بھی پشتون ہیں،ہم سب افغان ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصرصاحب سے پوچھیئے کہ ان کی قومیت کیا ہے؟ جس پر اسد قیصر صاحب نے جواب دیا کہ جی ہاں میں میری قومیت ”افغان“ ہے۔
محسن داوڑ نے کہا اجلاس میں موجود ارکان پارلیمنٹ علی محمد خان اورمشتاق غنی سے بھی پوچھیئے کہ ان کی قومیت کیا ہے؟ تو انہوں نے بھی کہا کہ ہماری قومیت ”افغان“ ہے
انہوں نے کہا کہ ہم اسی لئے خود کو افغان کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کسی اوروجہ سے خود کو افغان کہتے ہیں۔ہم سب ایک ہی خطے میں جڑے ہوئے ہیں، ہماری تمام اقدار،روایات، خاندانی مراسم مشترک ہیں۔
اس موقع پر ن لیگ کے رہنما اور پاکستان کے سابق وزیر اعظم شایدعباس خاقان نے اٹھ کر کہا کہ محسن داوڑ جو بات کر رہے ہیں اس کو غور سے سننا چاہیے۔ہمیں ان لوگوں کو سوفٹ پاور کے طور پر افغانستان میں استعمال کرنا چاہیے۔یہ جو پی ٹی ایم ہے، یہ جو ہمارے پشتون بھائی ہیں،جو بارڈر کے اس طرف رہتے ہیں،یہی ہماری افغانستان میں اسٹریجک ڈیپت ہونے چاہئیں۔ناکہ طالبان ہیں جو بندوق کے زور پراس وقت وہاں حملہ آور ہیں۔
محسن داوڑ نے کہا کہ ہم جواس وقت کر رہے ہیں، طالبان کے علاوہ خطے میں ہم نے اپنا کوئی دوست نہیں بنایا۔جس وجہ سے آج افغانستان میں ہمارا کوئی دوست نہیں ہے۔سب لوگ ہمیں ناپسند کرتے ہیں کہ جن طالبان نے ان کو مارا، قتل کیا، خون بہایا، ہم انہیں سپورٹ کرتے ہیں۔
محسن داوڑ نے آرمی چیف کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم بھی افغانستان میں امن چاہتے ہیں۔آپ ان افغان طالبان کو نکال دیں، یہ واپس افغانستان جائیں، وہاں لڑیں، مریں، جو بھی ہویہ ان کا مسئلہ ہے۔ کم از کم ہمارے یہاں سے چلے جائیں اور ہم پر یہ الزام لگنا بند ہوجائے کہ ہم نے ان کو پناہ دی ہوئی ہے۔
اجلاس میں محسن داوڑ نے پاکستان کے جن جن علاقوں میں افغان طالبان کی موجودگی کا ذکر کیا، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہاکہ بالکل جن جن علاقوں کے نام آپ نے بتائے تھے وہاں افغان طالبان موجود ہیں لیکن انہیں نکالنے کیلئے ہمیں سیاسی قیادت کی سپورٹ چاہیے ہوگی۔اگرسیاسی قیادت کی ہمیں سپورٹ حاصل ہوگی تو انہیں ضرور نکال دینگے۔
ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ اجلاس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پی ٹی ایم کے رہنما محسن داوڑ کے باتوں سے بہت جذباتی ہوئے۔اورانہوں نے غصے اورتلخ لہجے میں محسن داوڑ کو مخاطب کرتے ہوئے جواب دیا کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ کو کہاں سے فنڈنگ ہورہی ہے۔اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ہم پر الزام لگتا ہے کہ الیکشن میں ہم نے دھاندلی کی ہے۔اگر ہم نے دھاندلی کی ہوتی تو ہم پہلے آ پ کے حلقے میں دھاندلی کرتے اور آپ کو جیتنے نہیں دیتے۔
اس پر محسن داوڑ کھڑے ہوگئے اور انہوں نے آرمی چیف کے باتوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پہلی بات یہ کہ آپ نے ہم پرفارن فنڈنگ کا جو الزام لگایا ہے آپ ثبوت لیکر آئیں۔ اور کسی بھی عدالت میں اگر ہم پر فارن فنڈنگ کا الزام ثابت ہوتا ہے تو ہمیں پھانسی پر چڑھا دیجیئے۔
دوسری بات آپ نے جو دھاندلی کی، کی ہے۔میرے حلقے میں پوری دنڈی مارنے کی کوشش کی گئی لیکن ہم پھر بھی جیت گئے۔ ایک پولنگ اسٹیشن ایف سی(فرنٹیئر کور)کے قلعے میں تھااور وہاں پر بہت ٹپے لگے۔
اجلاس میں پارلیمنٹرین نے فوجی قیادت سے پوچھا کہ کیا امریکا افغانستان میں امن کیلئے پاکستان میں بیسز مانگ رہا ہے؟۔
اس پر فوجی قیادت نے جواب دیا کہ نہیں، ہم کوئی بیسز امریکا کو نہیں دے رہے ہیں۔البتہ امریکا کی جو فوجی بیسز ہیں وہ انہیں گلف میں رکھے گا۔اوریو اے ای اور بحرین میں امریکا کے جو فوجی بیسز موجود ہیں وہ وہی استعمال کرے گالیکن وہ ہماری فضائی حدود کو استعمال کرے گا ہم انہیں نہیں روکیں گے کیونکہ ہما را جنرل پرویز مشرف کے دور سے ان کے ساتھ معاہدہ چلا آرہا ہے تو وہ وہی استعمال کرتے ہوئے افغانستا ن میں حملہ کرنا چائیں گے تو یہ ان کا اپنا ذاتی فیصلہ ہوگا۔
پارلیمنٹرین نے فوجی قیادت سے پوچھا کہ کیاافغان طالبان نے بھارتی حکام سے ملاقات کی ہے؟
تو اس پرڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے کہا کہ یہ کوئی فارمل ملاقات نہیں ہوئی،ہم اس پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ اس اجلاس کی دلچسپ پہلو یہ تھی کہ جب آرمی چیف بات کر رہے ہوتے تو حکومتی اراکین، پی ٹی آئی کے وزرا ڈیسک بجا تے تھے جیسے کہ ان کا وزیر اعظم بات کررہے ہیں۔
اجلاس میں پی ٹی ایم کے رہنما محسن داوڑ نے تجویز دی کہ فوج کا کام پولیسنگ کا نہیں ہے۔ اگر ہمارے علاقوں میں فوج موجود ہے تواس کو چاہیے کہ وہ بارڈر پر چلے جائے۔
اجلاس میں سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن)کے رہنما شاہد عبا س خاقان نے کہاکہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یہ دیکھ کر بڑا افسوس اوردکھ ہوتا ہے کہ ایک منتخب پارلیمنٹرین علی وزیر کوہتھکڑیاں لگاکر گھمایا جاتا ہے۔آپ سوچیے بطور پارلیمنٹیرین مجھے دکھ ہوتا ہے تو اس کے حلقے کے جن لوگوں نے ان کو ووٹ دیاان کو کتنا دکھ اور افسوس ہواہوگا؟ آپ یہ مت کیجیے ان کو چھوڑ دیجیے۔
اس پر آرمی چیف نے کہا کہ دیکھئے کہ بات یہ نہیں ہے، علی وزیر نے جو بات کی ہے۔ انہوں نے میری ذات پر جوتنقید کرتے مجھے اعتراج نہیں ہوتا۔ جس طرح میاں نواز شریف نے میری ذات پر تنقید کی ہے، میرا نام لیا، میرے بارے میں بہت کچھ کہا، ہم نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔لیکن علی وزیر نے فوج کے ادارے کی بات کرکے سخت گفتگو کی۔تو ہم فوج کے ادارے پر بات کرنے پر کسی کوکسی بھی صورت میں نہیں چھوڑیں گے۔
اس پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کھڑے ہوگئے اور انہوں نے آرمی چیف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ برائے مہربانی علی وزیر کو چھوڑ دیجیے۔وہ جذباتی ہے، انہیں سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ کیونکہ علی وزیر کی فیملی میں بہت لوگ قتل ہوئے ہیں۔تو جس نے اپنے بھائیوں، کزنزاوردوستوں کی لاشیں اٹھائی ہیں اس کے غصے کا عالم اور ہوگا۔ان کی ماں کو دیکھیے وہ اپنے بیٹے کا انتظار کر رہی ہے، وہ اتنا سفر کررہی ہے، آپ برائے مہربانی انہیں چھوڑ دیجیے۔
جس پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ دیکھیے ہمارے بھی فوجی اہلکار شہید ہوتے ہیں۔ان میں بھی غصہ ہوتا ہے، ہمارے ادارے نے بھی قبربانیاں دی ہیں۔تویہ کیا بات ہوئی کہ صرف علی وزیر نے قربانیاں دی ہیں۔
اس پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ نہیں علی وزیر ایک منتخب پارلیمنٹیرین ہیں، آپ تھوڑا درگرز سے کام لیں اورجانے دیجیے۔
جس پر آرمی چیف نے بلاول بھٹو زرداری کو پیشکش کی اگرعلی وزیر معافی مانگ لیں تو ہم ان کو چھوڑ دینگے۔کیونکہ علی وزیر نے کہا کہ میں فوجیوں کو الٹالٹکا دوں گااور گھسیٹوں گا،یہ بات ناقابل قبول ہے۔ہمارے لوگ اس علاقے میں دہشتگردی کیخلاف لڑتے ہوئے قتل ہورہے ہیں اورشہید ہورہے ہیں۔
آرمی چیف کی بات پر محسن داوڑ نے کہا کہ یقیناہمارے فوجی جوان وہاں شہید ہورہے ہیں لیکن پی ٹی ایم والے تو انہیں شہید نہیں کر رہے ہیں؟پی ٹی ایم والے تو وہاں کسی کو نہیں مار رہے ہیں۔وہ توخود انہی دہشتگردوں کے ہاتھوں شہید ہورہے ہیں۔
فوجی قیادت اور پارلیمنٹرین کے درمیان اس خفیہ بریفنگ میں فوجی قیادت میں ایک غصہ اورپارلیمنٹرین میں ایک خوف اور ڈرپایا گیا۔
بعض تجزیہ کاراس خفیہ اجلاس کوفوجی قیادت کی جانب سے پاکستان کی سیکورٹی و سفارتی معاملات پرسیاسی قیادت کو اپنے پچھلے تین سالوں کی غلط اوربچکانہ فیصلوں میں شامل کرنا تھا۔لیکن پارلیمنٹرین کی رائے سے فوجی قیادت کوبہت مایوسی ہوئی ہے۔
اگر چہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے اجلاس میں شرکا پر اپنا پریشر بنائے رکھا تاکہ ان کی رائے کو اپنی رائے سے ملایا جائے لیکن ایسا ممکن نہیں ہوپایا۔
اس اجلاس میں پارلیمنٹرین کی رائے مکمل طور پر جمہوریت نوازاور ایک آئین و منشور کی بنیادپر پاکستان کو چلانامقصود تھا۔ اور فوج کوسیاست سے دور اپنے پیشہ وارانہ کام سے کام رکھناتھا۔
اب دیکھنایہ ہے کہ قومی سلامتی کے نام پر اس بریفنگ کے بعد فوجی قیادت کی جانب سے پارلیمنٹرین کو کشمیر اور پاکستان کی اندرونی سیکورٹی کے حوالے سے دوسرے بریفنگ سیشنز ہونگے یانہیں۔
اس اجلاس میں پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس قیادت نے قومی سلامتی کے امور پرارکان پارلیمنٹ کو تقسیم کرنے والی سیاست سے گریز کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور خبردار کیا کہ تزویراتی چیلنجز اور متعلقہ بیرونی تعلقات میں پالیسی کی تبدیلیوں کے ملک پر بہت برے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
لیکن کیسا ملک ہے پاکستان کہ اس بریفنگ میں ملک کا وزیراعظم جو سپریم کمانڈ ہے،غائب تھا اس سے صاف ظاہر ہے پاکستان میں کوئی سیاسی سسٹم اور جمہوریت نہیں ہے،اس ملک کو روز اول سے فوجی چلا رہے ہیں اور اس لیے آج افغانستان تباہ ہے،کشمیر پاکستان کے زیر قبضہ ہے،پشتونوں کو انسان نہیں سمجھا جاتا،بلوچوں پر بنگلہ دیش میں جو مظالم اس فوج نے کیے اس سے زیادہ تشدد جاری ہے،سندھی اور دیگر اقوام کے ساتھ دیگر مذہبوں کے لوگ بھی محفوظ نہیں، ملٹری اسٹیبلشمنٹ صرف دہشت گرد جہادی
narrative
پر قائم ہیں۔ ایسے ملک کا اندرونی حال کیا ہو گا ہم صرف تجزیہ کر سکتے ہیں لیکن وہاں کے عوام کا کیا حال ہے یہ کوئی انکے دل سے پوچھے۔
مگر ایک بات صاف ہے ایسے ریاست سے یہ خطہ محفوظ نہیں رھ سکتااس لیے کہ اس ریاست پاکستان کو اسلامی شدت پسند فوجی چلاتے ہیں۔