پاکستان کی مذہبی تنظیم تحریک لبیک پاکستان یعنی ٹی ایل پی پاکستان آرمی کی تشکیل کردہ ایک شدت پسند تنظیم ہے۔
دو مہینے قبل جب تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے تین چاردنوں سے پاکستان بھر میں پُر تشدد مظاہروں اور احتجاج کا سلسلہ جاری رہاتوپاکستان کی سول حکومت نے اسے کالعدم قرار دیدیا۔
تحریکِ لبیک پاکستان کی جانب سے احتجاج کا آغاز 12اپریل کو جماعت کے سربراہ سعد رضوی کی لاہور سے گرفتاری کے بعد ہوا تھا۔
کیونکہ تحریک لبیک نے حکومت کو یہ وارننگ دی تھی کہ اگر20اپریل کو فرانس کے سفیر کو پاکستان بدر نہیں کیا گیا اور فرانس کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم نہیں کئے گئے تو تحریک لبیک 20اپریل کواسلام آباد کے فیض آباد چوک پر دھرنادے گی۔
اس وارننگ کے بعد پاکستان کی سول حکومت گھبرا گئی اور تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی کوگرفتار کرلیا گیا تاکہ ا20اپریل کے دھرنے کو روکا جاسکے۔
لیکن تنظیم کے سربراہ کی گرفتاری کے بعد پاکستان بھر میں پُر تشدد مظاہروں اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
اس دوران اس مذہبی تنظیم کے کارکنوں نے لاہور، اسلام آباد اور کراچی، کوئٹہ سمیت متعدد شہروں میں سڑکیں بند کر کے دھرنے دے دیے تھے۔ ان کارکنوں کو منتشر کرنے کی کوششوں کے دوران تصادم میں تین سو سے زیادہ افراد زخمی ہوئے اور 2پولیس اہلکاروں سمیت پانچ افراد ہلاک ہو گئے۔
تحریک لبیک کے پرتشدد مظاہروں کے بعد پاکستان کے وزارت داخلہ نے تنظیم پر 1997 کے انسداد دہشت گردی قانون کے تحت پابندی عائد کردیا۔
یہ اعلان کرتے ہوئے وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ پنجاب حکومت کی سفارش پر کیا گیا۔
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے میڈیاسے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ جماعت تحریک لبیک پاکستان پر پابندی عائد کی ہے لیکن پابندی انسداد دہشتگری کے قانون 1997 کے رولز 11 بی تحت لگائی ہے جس کے لیے صرف کابینہ کی منظوری درکار ہوتی ہے۔
وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ اس پابندی کے تحت ان کی تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی ہوگی اور ان کے مالی اثاثے منجمد کر دیے جائیں گے۔
یاد رہے کہ 2017 میں جب نواز شریف کی حکومت تھی تو تحریک لبیک جب دھرنا دینے کیلئے اسلام آباد میں آرہی تھی تویہی شیخ رشید جو اس وقت اپوزیشن میں تھے انہوں نے ٹی ایل پی کی حمایت میں حکومت کو وارننگ دیتی کہ اب پاکستان میں یا رسول اللہ کی ایسی تحریک چلے گی کہ تمہاری لوٹی ہوئی دولت بھی کام نہیں آئے گی اور یہ فرسودہ نظام کو بھی آ گ لگا دے گی۔
اب یہ دھرناعمران خان کی حکومت کیخلاف دیا جارہا ہے تو اس پر پابندی لگائی گئی ہے۔یعنی ٹی ایل پی کا پر تشدد احتجاج و دھرنا جو کل صحیح تھا آج اپنے دور ِحکومت میں غلط قرار دی جارہی ہے۔
وزارت داخلہ کی طرف سے جاری ہونے والی ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان تحریک لبیک کی جانب سے گذشتہ تین دن سے جاری پرتشدد مظاہروں کے دوران پاکستان بھر سے 2135 افراد گرفتار کیے گئے جن میں سے 1669 پنجاب اور 228 سندھ سے گرفتار کیے گئے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا سے 193 اور اسلام آباد سے 45 افراد گرفتار ہوئے جبکہ گرفتار افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی کے مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔
تحریک لبیک پاکستان کی بنیاد خادم حسین رضوی نے 2017 میں رکھی۔ بریلوی سوچ کے حامل خادم حسین رضوی محکمہ اوقاف کی ملازمت کرتے تھے اور لاہور کی ایک مسجد کے خطیب تھے۔
لیکن 2011 میں جب پنجاب پولیس کے گارڈ ممتاز قادری نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کیا تو انھوں ممتاز قادری کی کھل کر حمایت کی جس کے نتیجے میں پنجاب کے محکمہ اوقاف کی جانب سے انھیں نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔
اس کے بعد نہ صرف خادم حسین رضوی نے ناموس رسالت قانون اور آئین کی شق 295سی کے تحفظ کے لیے تحریک چلائی بلکہ ممتاز قادری کی رہائی کے لیے بھی سرگرم رہے اور جنوری 2016 میں ممتاز قادری کے حق میں حکومتی اجازت کے بغیر علامہ اقبال کے مزار پر ریلی کا انعقاد بھی کیا۔
اسی سال جب ممتاز قادری کو پھانسی دے دی گئی تو اس کے خلاف احتجاج کے لیے اسلام آباد کے ڈی چوک کا رخ کیا تاہم حکومت سے مذاکرات کے بعد یہ احتجاج چار دن کے اندر ہی ختم کر دیا گیا۔
اسی دھرنے کے اختتام پر مولانا خادم رضوی نے اعلان کیا تھا کہ وہ ‘تحریک لبیک پاکستان یا رسول اللہ’ کے نام سے باقاعدہ مذہبی جماعت کی بنیاد رکھیں گے۔
ابھی الیکشن کمیشن کی جانب سے تحریک لبیک پاکستان کو بطور سیاسی جماعت رجسٹر بھی نہیں کیا گیا تھا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کے بعد خالی ہونے والی این اے 120 کی نشست پر جب ضمنی الیکشن ستمبر 2017 میں ہوئے تو جماعت کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار شیخ اظہر حسین رضوی نے انتخاب میں حصہ لیا اور 7130 ووٹ حاصل کیے جو جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کے امیدواروں سے بھی زیادہ تھے۔
اس کے بعد تحریک لبیک نے مولانا خادم رضوی کی قیادت میں اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد اور الیکشن ایکٹ 2017 میں مجوزہ ترامیم کے خلاف اسلام آباد کا ایک بار پھر رخ کیا اور نومبر 2017 میں راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم، فیض آباد پر رسالت کے قانون میں ترمیم کے خلاف ایک طویل لیکن بظاہر کامیاب دھرنا دیا جس نے نہ صرف مولانا خادم رضوی بلکہ تحریک لبیک پاکستان کی شہرت میں بے حد اضافہ کیا۔
اور یہ بات بالکل صاف ہے کہ تحریک لبیک کے اس دھرنے کے پیچھے مکمل طور پرپاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی تھی۔جس نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو ہٹانے اور پنجاب میں مسلم لیگ نون کی ووٹ بنک کو ختم کرنے کیلئے متبادل کے طور پر تحریک لبیک کو سامنے لایا۔ اور اس دھرنے میں شریک ہونے والے تمام لوگوں میں پاکستانی فوج نے پیسے بانٹے۔
اس دھرنے کے نتیجے میں وزیر قانون کو استعفیٰ دینا پڑا اور حکومت نے پہلی بار ٹی ایل پی کے ساتھ ان کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے معاہدہ کیا۔
اس دھرنے میں جب پاکستانی فوجی افسر کے ہاتھوں پیسے بانٹنے کی ویڈیو وائرل ہوگئی تو پاکستان سریم کورٹ کے ایک سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جس کو تعلق بلوچستان سے ہے نے نوٹس لیا اور اس دھرنے کے پیچھے ملوث ہاتھوں کو بے نقاب کردیا۔جس میں پاکستانی فوج،شیخ رشیداور دیگر افراد کے نام سامنے آگئے۔
پاکستانی فوج کے خلاف ایکشن لینے پر پاکستان سپریم کورٹ کے مذکورہ جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف فوجی اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کی حکومت نے سپریم کورٹ میں ریفرنس داخل کیا جو آج تک زیر سماعت ہے اور اس جج کی پاکستان کی اسٹریم میڈیا کے ذریعے نہ صرف کردار کشی کی جارہی ہے بلکہ اس کی پوری فیملی کو بدنام کیا جارہا ہے۔
یعنی پاکستان کی جوڈیشلی بھی تحریک لبیک یا اسلامی مذہبی شدت پسند نظریات کا سپورٹر ہے۔
ٹی ایل پی نے مذکورہ دھرنے کے شہرت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 2018 کے عام انتخابات میں چاروں صوبوں میں اپنے امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان کیا اور قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کل 559 امیدوار کھڑے کیے جن میں سے دو امیدوار سندھ اسمبلی کی دو نشستوں پر کامیاب بھی ہوئے جبکہ ایک امیدوار نے مخصوص نشست حاصل کی۔
قومی اسمبلی کے انتخابات میں ان کی جماعت ووٹوں کے اعتبار سے ملک میں پانچویں بڑی جماعت تھی اور انھیں 22 لاکھ سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔
اس طرح تحریک کے اس وقت تین ممبر صوبائی اسمبلی بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ مولانا خادم رضوی کا لاہور میں ایک مدرسہ جامعہ ابوزر غفاری بھی موجود ہے۔
ٹی ایل پی کو پاکستانی فوج اور اسکے حمایتی تنظیموں پی ٹی آئی، ق لیگ اور دیگرسمیت پاکستان کی سٹریم میڈیا نے مکمل طور پر سیاسی و لاجسٹک سپورٹ فراہم کرکے ایک بڑا قوت بنا یا ہے۔
فرانس میں ”چارلی ایبڈو“ کے شماروں میں پیغمبر اسلام پر بنائے گئے خاکوں کیخلاف خادم رضوی کی قیادت میں تحریک لبیک نے پاکستان میں فرانسیسی سفیر کی ملک بدری اور فرانس سے سفارتی تعلقات کے خاتمے سمیت فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کے حوالے سے گذشتہ برس نومبر میں دھرنا دیا اور اس کے بعد حکومت کے ساتھ پہلا معاہدہ نومبر 2020 میں کیا۔
خادم رضوی کی نومبر 2020 میں وفات کے بعد ان کی جماعت نے ان کے بیٹے سعد رضوی کو تحریک لبیک کا نیا سربراہ مقرر کیا۔
خادم حسین رضوی کی وفات کے بعد فروری 2021 میں سعد رضوی کی قیادت میں حکومت نے ٹی ایل پی کے ساتھ فرانس کے سفیر کی پاکستان بدری اور فرانس کے ساتھ سفارتی تعلقات کے خاتمے پر مبنی ان کے مطالبات کے حوالے سے دوسرا معاہدہ کیا۔
اس معاہدے کے تحت حکومت نہ صرف 20 اپریل 2021 تک فرانسیسی سفیر کو پاکستان بدر کرنے کے لیے تحریک پارلیمنٹ میں پیش کرے گی بلکہ فورتھ شیڈیول میں شامل تحریک لبیک کے تمام افراد کے نام بھی فہرست سے خارج کر دیے جائیں گے۔
عمران خان کی حکومت نے ٹی ایل پی کے ساتھ فرانس کے سفیر کی ملک بدری اور فرانس کے ساتھ سفارتی تعلقات کے خاتمے کاجومعاہدہ کیا تھا وہ پریکٹکلی ممکن نہیں تھا۔لیکن حکومت نے بس ٹالنے کیلئے یہ معاہدہ کیا تھا۔ اور حکومت نے اس مکمل لائٹلی لیا تھا کہ بس دھرنا ختم ہوگا تو بعد میں یہ بھول جائینگے لیکن 20اپریل کو جب ٹی ایل پی نے اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان کیا تو حکومت گھبراگئی اور انہوں نے ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی کو گرفتار کرلیا۔
اب پاکستان کی حکومت ایک بند گلی میں پہنچ چکا ہے۔کیونکہ عمران خان کی حکومت ،فرانس کی سفیر کی ملک بدری اور فرانس کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے کی ٹی ایل پی کے مطالبات منظور کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور نہ ہی یہ ممکن ہے۔کیونکہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ٹی اے ایف اے) کا پاکستان پر بہت بڑا پریشر ہے۔
منی لانڈرنگ کیخلاف اقدامات اٹھانے والے ٹی اے ایف اے کے ارکان میں فرانس بھی شامل ہے اور پاکستان پہلے ٹی اے ایف اے کے گرے لسٹ میں لٹک رہا ہے اگر فرانس کیخلاف کوئی اقدامات کیا جائے گا تو پاکستان ٹی اے ایف اے کے بلیک لسٹ شامل ہوجائے گا۔
ٹی ایل پی پر حکومت کی جانب سے جب پابندی عائد کردی گئی تو فرانس کی حکومت نے پاکستان میں موجود اپنے سفراتی عملے سمیت فرانسیسی شہریوں کو فوری طور پر پاکستان چھوڑنے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔
پاکستان کے نامور صحافی و تجزیہ کار ٹی ایل پی پر لگائی گئی حکومتی پابندی کو محض ایک دکھاوا قرار دے رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ حکومت اس پر عملدرآمد نہیں کراسکتا۔
جبکہ ٹی ایل پی کی قیادت نے تنظیم پر حکومت کی جانب سے لگائی گئی پابندی کوڈنکے کی چھوٹ پر رکھا ہے۔
تحریک لبیک پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح سوشل میڈیا پر سرگرم ہے۔
تحریک کے سابق سربراہ خادم رضوی کا ٹوئٹر اکاونٹ جس پر لاکھوں فالورز موجود تھے حکومت پاکستان کی شکایت پر بند کر دیا تھا لیکن تنظیم کے فیس بک اور ٹوئٹر پر اب بھی متعدد اکاؤنٹس اور صفحے موجود ہیں جبکہ یوٹیوب پر دو آفیشل چینلز ہیں جن کے 12 ہزار سے زائد فالوورز ہیں۔
ان سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے تنظیم نہ صرف عوام کو احتجاجی دھرنوں کے لیے حرکت میں لاتی ہے بلکہ یہ تنظیم کا نظریہ عام کرنے اور اس کے لیے امداد اکھٹی کرنے کا بھی اہم ذریعہ ہے۔
تحریک لبیک اصل میں پاکستان آرمی کی اسلامی مذہبی شدت پسند نظریاتی پروڈکشن کی ایک پروڈکٹ ہے جس کے تحت وہ پاکستانی شہریوں کے اسلامی اور مذہبی جذبات کا سہارالیکراسلامی و مذہبی شدت پسندانہ نظریات کاپروڈکٹ بیچتا ہے تا پاکستان میں اپنی بادشاہت جاری رکھ سکے جو بغیر اسلامی اور مذہبی جذبات کے استعمال سے ممکن نہیں ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگرچہ عمران خان کی حکومت کو لانے والا پاکستانی فوج ہے لیکن گذشتہ ڈھائی تین سالوں کے دوران عمران خان حکومت نے کچھ بھی ڈیلیور نہیں کیا جس پر اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے اپنے جلسوں میں پاکستانی فوج کو ملکی معیشت کی خراب صورتحال، بیروگاری، کرپشن، اظہار رائے کی آزادی پر قدغن، جبری گمشدگیوں میں اضافہ،اسٹریم میڈیا اورسوشل میڈیا پر کنٹرول جیسے تمام اقدامات کا ذمہ دار قرار دیا جس سے پاکستان بھر میں فوج کی مورال گر گئی ہے۔
لیکن یہ ایک سچ ہے کہ عمران خان کی شکل میں پاکستان کی موجودہ سول حکومت کی ناکامی کاذمہ دار مکمل طور پر پاکستانی فوج ہے کیونکہ عمران خان یا سرفیس کی سول حکومت محض دکھانے کے چہرے ہیں اور ان کے ہاتھ میں کوئی بھی اختیار نہیں ہے۔
پاکستان کی ریاستی یا انتظامی امور مکمل طور پر فوج چلا رہی ہے جو تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان ایک انتشار کی جانب بڑ رہا ہے کیونکہ فوج میں سیاسی وژن نہیں ہوتی اور بندوق کے نوک پریا طاقت کے بل بوتے پر کسی ملک کوچلایا نہیں جاسکتا۔
کہا جارہا ہے اب پاکستان فوج عمران خان کی حکومت سے خوش نہیں ہے اسی لئے تحریک لبیک کو جس طرح نواز شریف کی حکومت ہٹانے کیلئے استعما ل کیا گیا اب بالکل اسی طرح عمران خان کی حکومت کو ہٹانے کیلئے ایک اور ڈرامہ رچایا جارہا ہے۔
اگر دھیان سے دیکھا اور تجزیہ کیا جائے توپاکستان آرمی، طالبان، آئی ایس آئی ایس،القاعدہ اورتحریک لبیک سمیت متعدد اسلامی ومذہبی شدت پسندتنظیموں میں اگر کوئی انتر ہے تو وہ ہے وردی اور ملک کی۔ طالبان، آئی ایس آئی ایس یا القاعدہ جیسے دہشتگردتنظیموں کانہ کوئی وردی ہے اور نہ ہی ملک لیکن پاکستانی فوج کااپناایک خاکی وردی ہے اورایک ملک بھی میں ہے۔
پاکستان کی فوج ایک ملکی فوج نہیں ہے بلکہ یہ ایک مذہبی دہشتگرد تنظیم ہے۔تحریک لبیک ہو، یا بلوچستان میں راتوں رات بنائی گئی تنظیم باپ،یا عمران خان کی پی ٹی آئی سب پاکستان آرمی کے اثاثے ہیں جن کے بل بوتے پر پاکستان آرمی دنیا بھر میں مذہبی و شدت پسندی کی پروڈکشن کرتا ہے۔
دنیا، آئی ایس آئی ایس، یا القاعدہ وطالبان کو دنیا کا سب سے بڑااور مشہورو طاقتوردہشتگرد تنظیم قرار دیتی ہے جو سچ نہیں ہے۔پاکستان آرمی ان سب کی مائی باپ ہے اور یہی سچ ہے،دنیا کو یہ بات مان لینی چاہیئے۔