نیوز انٹرونشن۔ خصوصی رپورٹ
پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیرمیں 25جولائی 2021کو عام انتخابات ہورہے ہیں۔لیکن ہر الیکشن کی طرح اس الیکشن میں بھی پاک فوج کی مداخلت کی خبریں زبان زد عام ہیں اور الیکشن
چوری کی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔
پاکستانی مقبوضہ کشمیر کی الیکشن اس وقت متنازع صورت اختیار کر گئے جب الیکشن سے قبل گلگت بلتستان اور کشمیر کیلئے تعینات آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈربریگیڈیئر نعیم ملک کو ہٹاکرایک نیا سیکٹر کمانڈر بریگیڈیئر ندیم کوتعینات کردیا گیا ہے۔
کہتے ہیں کہ محاذ جنگ پر جو کمانڈر تعینات ہوتا ہے اور جنگ چل رہا ہوتا ہے تو اسے کسی صورت تبدیل نہیں کیا جاتا۔لیکن پاکستان میں سب کچھ ممکن ہے۔ آئین و قانون تو بنائے گئے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں ہوتا یعنی ہر چیز بس بندوق بردارکے حکم پر ہوتا ہے۔
گلگت بلتستان اورپاکستانی مقبوضہ کشمیر میں آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈرکی تبدیلی کی جب خبرمظفر آباد سے شائع ہونی والی اخبار ”روزنامہ جموں کشمیر“میں چھپی توکشمیر الیکشن کی چوری میں پاک فوج کا چہرہ سامنے آگیا۔ یہ اور بات ہے کہ پھر اخبار کو منظرنامے سے ہٹادیا گیا جو عموماً پاکستان میں ہر حقیقی خبر شائع کرنے پر میڈیا ہاؤسز کے ساتھ ہوتا ہے۔
اخبار میں شائع خبر کے مطابق کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سخت ایکشن لیتے ہوئے اختیارات کا ناجائز استعمام کرنے والے بریگیڈیئر نعیم ملک کو برطرف کردیا ہے۔اور اسے جنرل ہیڈ کوارٹر(جی ایچ کیو)میں رپورٹ کرنے کیلئے کہا گیا ہے۔اور اس پر الیکشن میں مداخلت کرنے کے الزامات بھی عائد کئے گئے تھے۔ اور کہا گیا ہے کہ وہ تحریک انصاف کے ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے کرپشن میں ملوث پائے گئے ہیں۔
واضع رہے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کے ٹکٹوں کی تقسیم کا مکمل اختیار پاک فوج کے پاس ہے۔ اور2018کے الیکشن میں بھی سبھی ٹکٹوں کی تقسیم فوج کے زیر نگرانی میں ہوئے تھے جس میں عمران خان کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔
بظاہر اس خبر میں عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاک فوج الیکشن کی شفافیت کو لیکر بہت حساس ہے لیکن اصل میں ایسا بالکل نہیں ہے۔الیکشن سے محض دس دن قبل گلگت بلتستان اور کشمیر کیلئے تعینات آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈربریگیڈیئر نعیم ملک کی تبدیلی اصل میں اس لئے کی گئی ہے کہ بریگیڈیئر نعیم ملک پاک فوج اورآئی ایس آئی کے ٹاسک کے بر خلاف کام کررہا تھا۔
حساس ذرائع کہتے ہیں کہ انہیں حکمران جماعت تحریک انصاف کی ٹکٹوں کی تقسیم اور الیکشن میں کامیابی دلانے کا ٹاسک دیا گیاتھا لیکن وہ اس میں کھرا نہیں اتراتھا۔بلکہ اس نے الٹا پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدرکی حکومت کو آئینی سپیس فراہم کی جس کی وجہ سے وزیر اعظم کوآئینی ترمیم لانے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ اور ا س ترمیم کی رو سے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقری میں ریاست پاکستان کے کردار کو ختم کردیا گیا ہے جو پاک فوج کی ”حکومت کروپالیسی“کے بالکل بر خلاف ہے۔
فوج کی ”حکومت کروپالیسی“کے تحت کشمیرکی الیکشن چوری کی راہ میں رکاوٹ بننے کی وجہ سے فوری طورپربریگیڈیئر نعیم ملک کو ہٹا کر بریگیڈیئر ندیم کو تعینات کردیا گیاہے جو سٹلمنٹ کے ماہر بتائے جاتے ہیں۔
مقامی ذرائع کہتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی الیکشن چوری کرنے کیلئے پاک فوج کی نگرانی میں وفاقی وزیر برائے امورکشمیر علی وزیر گنڈاپور کی سربراہی میں ایک مقامی مسلح قبائلی لشکر تشکیل دیدی گئی ہے جوپاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے کشمیر سیکٹرکمانڈبریگیڈیر نعیم ملک کے حکم پر کا م کر رہا تھا لیکن عوام نے اسے مکمل طور مسترد کردیا ہے۔
عوامی حلقوں میں یہ باتیں بھی کہی جارہی ہیں کہ ٹکٹوں کے حصول میں تحریک انصاف کے اہم مقامی و نظریاتی رہنماؤں کومکمل نظر انداز کر دیا گیا ہے اوروہ شدید مایوسی کا شکار ہیں۔اس سلسلے میں تحریک انصاف آزاد کشمیر کے سنیئر رہنما، بانی کارکن و امیدوار اسمبلی برائے حلقہ 19 پونچھ 2 سردار عبد الحمید خان ایڈووکیٹ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جو شخص پانچ سال تک عمران خان اور تحریک انصاف کو گالیاں دیتا رہا اسے ٹکٹ دیکر ہمیں نظر انداز کیا گیا جو نا قابل قبول ہے۔
وفاقی وزیر برائے کشمیر امورعلی وزیر گنڈاپور کی سربراہی میں تشکیل دی گئی مسلح قبائلی لشکر سے لوگوں کو خوفزدہ کیا جا رہا ہے تاکہ آزادجموں کشمیر کے 25 جولائی کو ہونے والے الیکشن میں اپنے پسند کے امیدواروں کو جتا کر آزادجموں کشمیر کو پاکستان میں ضم کر دیا جائے۔ لیکن اس بار عوام نے پاک فوج کے عوامی حق رائے دیہی چھیننے کے خلاف مزاحمت شروع کر دیا ہے جس کا آغاز پونچھ کے ضلع باغ میں یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے لشکر کے کمانڈر امین گنڈاپور پر جوتا مار ا اورپھراس کے قافلے کو ایک مقامی شخص کی جانب سے کھن بندو کے مقام پر روکنے اور پھر وہاں پہاڑ پر موجود کچھ دیگر لوگوں کی جانب سے ان پر پتھراؤ کی گئی۔جس کے ردعمل میں وفاقی وزیر اور اس کے مسلح دستوں نے عوام پر فائرنگ کی۔
عوام پر فائرنگ اور حملوں کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے پورے آزاد جموں کشمیر کے عوام نے مسلح لشکریوں کے خلاف صف بندی کر دی۔مظفرآباد اور پونچھ ڈویژن میں پاک فوج کے اس قبائلی مسلح لشکر کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
جبکہ پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر کے کٹھ پتلی وزیراعظم نے اس حملے کے خلاف اسلام آباد میں دھرنے کا علان کر دیاجبکہ دوسری طرف پاکستان کی حکمران جماعت تحریک انصاف کے آزاد کشمیر شاخ کے صدر بیرسٹر سلطان نے اپنی ذاتی محفلوں میں اس بات پر بحث شروع کر دیا ہے کہ آزاد کشمیر کے عوام کا نہ صرف ووٹ کا حق چھینا جا رہا ہے بلکہ ان کی عزت نفس کو بھی مجروح کیا جا رہا ہے۔
پاکستانی مقبوضہ کشمیرکے کٹھ پتلی وزیر اعظم راجا فاروق حیدرجس کاتعلق پاکستان مسلم لیگ (ن) سے نے ایک پریس کانفرنس میں دھمکی دی ہے کہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں وزیر اعظم پاکستان اور ان کے وزرا کی براہ راست مداخلت بند نہ ہوئی تو وہ اسلام آباد میں دھرنا دیں گے۔
مظفرآباد میں ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے راجا فاروق حیدر نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کے اراکین ڈھٹائی سے آزاد جموں کشمیر کے آئین کی بے حرمتی اور خلاف ورزی کر رہے ہیں، میں اپنا معاملہ پاکستان کے عوام کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
مقامی لوگوں پر فائرنگ اورلوگوں میں پیسے تقسیم کرنے اورجلسوں میں ناشائستہ زبان استعمال کرنے کیخلاف پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں موجود الیکشن کمیشن حکام نے وفاقی وزیر برائے امور کشمیر علی امین گنڈا پور کی کشمیر میں جلسے جلوسوں میں شرکت اور تقاریر پر پابندی عائد کر دی ہے۔
الیکشن کمیشن نے چیف سیکرٹری کو بھجوائے گئے مراسلے میں کہا ہے کہ وفاقی وزیر ورائے امور کشمیر علی امین گنڈا پور کشمیر میں انتخابی قوانین کی مسلسل خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ وہ کشمیر کے انتخابات میں دانستہ طور پر منفی انداز میں متاثر کر رہے ہیں۔اور اس کی پاداش میں انھیں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ’انتخابی مہم اور جلسے جلوسوں میں شرکت اور تقریر کرنے پر فوری طور پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیر کے افعال کی وجہ سے نہ صرف امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو رہا ہے بلکہ انسانی جانوں کے ضیائع کا بھی خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
واضع رہے کہ اس سے پہلے بھی ممبر قومی اسمبلی امین گنڈا پور کے خلاف ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے پر ایف آئی آر کٹ چکی ہے۔اور اکشمیر میں الیکشن کے لیے مہم کے دوران اس کی ایک ایسی ویڈیو بھی سامنے آئی ہے جس میں ایک جگہ پروہ لوگوں میں پیسے تقسیم کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
پاکستانی زیر قبضہ کشمیر کے 29 حلقوں کے لیے2237058 جبکہ مہاجرین کے 12 حلقوں کے لیے 444634 ووٹر اپنا ووٹ استعمال کریں گے۔ عام انتخابات کے لیے جاری کردہ ضابطہ اخلاق کے مطابق ہر امیدوار کو20 لاکھ تک انتخابی جبکہ 5 لاکھ تک کے ذاتی اخراجات کااختیار حاصل ہوگا۔لیکن تحریک انصاف ا ورپاک فوج کی جانب سے عوامی حلقوں میں بے شمار پیسے بانٹنے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔
اس وقت پاکستان مسلم لیگ (ن)،پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف بھرپور انتخابی مہم چلارہے ہیں اورمقابلہ بھی انہیں تینوں جماعتوں کے درمیان ہے لیکن یہ خدشہ بھی ظاہرکیا جارہا ہے کہ الیکشن میں کامیابی تحریک انصاف کو حاصل ہوگی کیونکہ پاک فوج الیکشن چوری کرنے میں مکمل طورپر سرگرم عمل ہے۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ اس سلسلے میں پاکستانی زیرِقبضہ مقبوضہ جموں کشمیر میں پاک فوج نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور افغان و کشمیرجہادکے سرخیل جنرل(ر) حمید گل کی”تحریک جوانان پاکستان“کو بطور ایک پارٹی رجسٹر کیا ہے۔جسکی سربراہی انکے صاحبزادے عبداللہ گل کررہے ہیں۔جسے حلقہ ایل اے انیس پونچھ تین سے تحریک انصاف سمیت دیگر جماعتوں کے مشترکہ امیدوار کے طور سامنے لایا جا رہا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن)کی نائب صدر مریم نوازاپنے انتخابی مہم میں پاک فوج اور آئی ایس آئی کویہ دھمکی دے چکے ہیں کہ اگراس بار الیکشن چوری ہوگئے تواہم رکیں گے نہیں،الیکشن اورسیاست میں ریاستی اداروں کی مداخلت کو مکمل طور پر عوام کے سامنے لاکر ملوث کرداروں کاچہرہ عیاں کرینگے۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن میں ایسے قوانیں بنائے گئے ہیں جس کے رو سے محض وہی پارٹیاں رجسٹرڈ ہو سکتی ہیں جو الحاق پاکستان کی حامی ہیں جبکہ قوم پرست وآزادی پسند پارٹیوں کو الیکشن میں حصہ لینے میں ممانعت ہے۔
جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما حبیب الرحمان کا کہنا ہے ہم بطور جے کے پی این پی الیکشن میں حصہ لینا چاہتے ہیں لیکن غاصب ملک پاکستان کی طرف سے اپنے دلالوں کی مدد سے الیکشن کمیشن میں ایسے قوانین بنائے گے ہیں۔ جن کے تحت ہماری پارٹی رجسٹرڈ نہیں ہو سکتی جو کہ ظلم ہے ہم ایسے ہر قانون کی بھرپور مذمت کرتے ہیں جو ہماری تباہی و بربادی کا سامان کرے۔
حبیب الرحمان کے مطابق ریاست پاکستان اپنے زیرِ قبضہ حصے پر اس طرح کے قانون بنا کر پابند کر رہا ہے کہ آزادی پسند الیکشن میں حصہ ہی نہ لے سکیں۔ پاکستانی حکومت اس دوہرے معیار کے تحت اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتی ہے اور کشمیر کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ جاری رکھنا چاہتی ہے۔
پاکستانی زیر قبضہ جموں کشمیرمیں پاک فوج کی مداخلت،الیکشن چوری کرنے اور عوامی حق رائے دہی بدلنے کے حوالے سے پاکستان کی کنٹرول اسٹریم میڈیا پر تو کچھ نہیں ہے البتہ سوشل میڈیا اور کشمیر کے حقیقی قوم پرست حلقوں میں کافی غم وغصہ پایا جاتا ہے اور پاک فوج شدید عوامی تنقید کی زد میں ہے۔ لیکن اسکے باوجود وہ اپنے گندے اور کرپٹ اعمال سے باز نہیں آرہا ہے۔
امن و امان کی صورتحال کا بہانہ بناکر کشمیر میں الیکشن کے دوران فوج،پولیس اوردیگر صوبوں سے سوِل آرمڈ فورسزکے مجموعی طور پر تقریباً 43 ہزار 500 اہلکاروں کو تعینات کیا جاریا ہے۔
اس سلسلے میں پاکستانی زیر قبضہ جموں کشمیر کے چیف سیکریٹری شکیل قادر خان نے میڈیا کو ایک بریفنگ میں بتایاکہ آزادانہ شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابی عمل کے لیے انتظامیہ الیکشن کمیشن آزاد کشمیر کی ہدایات کے مطابق امن و امان برقرار رکھنے کے علاوہ ووٹرز اور امیدواروں کو پُرامن ماحول فراہم کرنے پر زیادہ توجہ دے رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امن و عامہ کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے آزاد کشمیر سے 5 ہزار 300 پولیس اہلکاروں، پنجاب پولیس سے 12 ہزار، خیبرپختونخوا سے 10 ہزار اور اسلام آباد پولیس سے ایک ہزار، فرنٹیئر کانسٹیبلری سے 400 جبکہ رینجرز کے 3 ہزار 200 اہکار طلب کیے گئے ہیں۔اوراس کے علاوہ ان اہلکاروں کو پاک فوج کے 6 سے 7 ہزار جوانوں کی معاونت بھی حاصل ہوگی۔
چیف سیکریٹری نے بتایا کہ 5 ہزار 123 پولنگ اسٹیشنز میں سے 826 کو حساس جبکہ 209 کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ انتہائی حساس پولنگ اسٹیشن پر 6 سیکیورٹی اہلکار، حساس پر 4 جبکہ نارمل پولنگ اسٹیشن پر 4 اہلکار تعینات کیے جائیں گے۔
الیکشن میں 43 ہزار 500 اہلکاروں کی تعیناتی اور826 پولنگ اسٹیشنز کو حساس جبکہ 209 کو انتہائی حساس قرار دینااس شبے کو زیادہ مستحکم کرتا ہے کہ الیکشن کو چوری کرنے کیلئے بہت بڑی منصوبہ بندی کرلی گئی ہے۔
جس طرح 2018کے الیکشن کو انجینئرڈکرکے پاک فوج وآئی ایس آئی نے اپنے بیس سالہ منصوبے کو عمران خان کی شکل میں عملی جامہ پہنایا جس کی قیادت میں آج ملکی معیشت تباہ ہوگئی ہے۔بیرونی قرضوں،بے روزگاری اور مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہوگیا ہے جبکہ اندرونی و بیرونی سیکورٹی اور سفارتکاری میں بھی پاکستان کی ساکھ ستر کی دہائی سے بھی بدتر ہوگئی ہے۔اوریہ سب پاک فوج کی اپنی کاروباری سلطنت ا ور حاکمیت کومستحکم کرنے کا ایک منصوبہ ہے جسے نہ پارلیمنٹ، نہ میڈیا اور نہ ہی اعلیٰ عدالتیں ختم کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔
یہ بات طے ہے کہ 25جوالائی میں ہونے والے الیکشن میں کشمیر ی عوام کی حق رائے دہی پر ڈاکہ پڑنے والا ہے جس طرح 2018میں پاکستانی عوام کے حق رائے دہی پر جرنیلوں نے ڈاکہ ڈالا تھا۔