بلوچ قوم پرست اوربلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے بی بی سی اردو کی جانب سے پاکستان حکومت سے مذکرات کے حوالے سے بھیجے گئے تحریری سوالات کے نامعلوم مقام سے دیئے گئے جوابات میں کہا ہے کہ مذاکرات کی باتیں ڈھکوسلہ ہیں ان میں کوئی سچائی نہیں کیونکہ یہ لوگ قابل بھروسہ نہیں ماضی میں انھوں نے پہلے مذاکرات کیے اس کے بعد تختہ دار پر چڑھایا۔
ڈاکٹر اللہ نذر کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ (حکمران) قابل بھروسہ نہیں ہیں کہ ان کے ساتھ ون ٹو ون مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھ جائیں یہ صرف دنیا کو دکھانے کے لیے مذاکرات کی بات کر رہے ہیں۔
’بلفرض مذاکرات ہو جائیں اور یہ سنجیدہ ہوں تو ہماری سب سے پہلے شرط یہ ہو گی کہ فوج کو بلوچستان سے نکالیں اور بلوچستان میں جو نسل کشی اور جنگی جرائم ہو رہے ہیں ان کی روک تھام کے لیے بین الاقوامی ادارے لائے جائیں وہ یہاں بیٹھیں تب ہم طے کریں گے کہ ہمارا ایجنڈآ کیا ہو گا۔‘ڈاکٹر اللہ نذر کا کہنا ہے کہ افغانستان سے انخلا کے بعد بلوچ تحریک پر بھی اثرات پڑ سکتے ہیں لیکن اس طرح نہیں جس طرح لوگ سوچ رہے ہیں۔
’ہماری اپنی زمین ہے ہماری اپنی قوم ہے ہم اس میں اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں گے طالبان اپنے علاقوں میں جائیں گے انھیں بھی سمجھنا چاہیے کہ بلوچ ایک قوم ہے وہ افغانستان میں بھی موجود ہیں اور اپنے وطن میں بھی جنگ لڑ رہے ہیں۔‘
’جس وقت نواب مری اور جنرل شیروف مری موجود تھے اس وقت بھی مجاہدین نے بلوچوں کا بڑا خیال رکھا تھا۔ اس وقت ہمارے پناہ گزین کی کافی تعداد افغانستان یا ایران میں پناہ لیے ہوئے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ طالبان یہ رسک نہیں لے سکتے۔‘