کہا جاتا ہے کہ فوج کسی بھی ملک کی دفاعی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اس کا بنیادی کام ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاک فوج پاکستان کی دفاعی نظام کی نہیں بلکہ اپنی قائم کردہ معاشی سلطنت کی محافظ ہے۔یعنی یہ ایک پیشہ ورانہ فوج نہیں رہی بلکہ ایک کمرشل آرمی ہے۔
اسی طرح یہ شاید دنیا کی واحد فوج ہے کہ جسے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ کاروبار کرنے کی بھی مکمل اجازت ہے۔ ہر سال دفاعی بجٹ کی مد میں پاکستان آرمی کو اربوں روپے مختص کیے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود فوج کے زیر انتظام ملک بھر میں 50 سے زائد کاروباری ادارے چل رہے ہیں۔
پاک فوج پاکستانی عوام کو یہ باور کراتی رہتی ہے کہ پاک فوج دنیا کی طاقتورترین فوجوں میں شمار ہوتی ہے اور اس کی انٹیلی جنس ادارہ ”آئی ایس آئی“ دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ادارہ ہے۔لیکن حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے،بس عوام کا اعتبار قائم کرنے کیلئے اس طرح کے پروپیگنڈے کئے جاتے ہیں تاکہ عوام سیاستدانوں کو کرپٹ سمجھتے رہیں اور وہ اپنا کام کرتے رہیں۔
پاک فوج دنیا کی واحد فوج ہے جس کی ملکی معیشت کے اندر اپنی الگ معاشی سلطنت قائم ہے اورپاکستان کی کم و بیش 60% معیشت میں حصہ دار ہے۔ ایمانداری اور حب الوطنی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ جواس کی غلط کاموں پر سوال اٹھا تا ہے اسے مار دیا جاتا ہے یا غدار قرار دیکر عوام میں ذلیل کیا جاتاہے یا اگر فوج کے اندر اس پر سوال اٹھتا ہے تو اس کا کورٹ مارشل کیا جاتا ہے۔
پاک فوج کے کاروباری سلطنت کے 4 حصے ہیں:
01۔ آرمی ویلفیئر ٹرسٹ
02۔ فوجی فاؤنڈیشن
03۔ شاہین فاؤنڈیشن
04۔ بحریہ فاؤنڈیشن
فوج ان 4 ناموں سے کاروبار کر رہی ہے۔ یہ سارا کاروبار وزارت دفاع کے ماتحت کیا جاتا ہے۔ اس کاروبار کو مزید 3 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
نیشنل لاجسٹک سیل
NLC
ٹرانسپورٹ:
یہ پاکستان کی سب سے بڑی ٹرانسپورٹ کمپنی ہے۔ جس کا 1,698 سے زائد گاڑیوں کا کارواں ہے اس میں کل 7,279 افراد کام کرتے ہیں جس میں سے 2,549 حاضر سروس فوجی ہیں اور باقی ریٹائرڈ فوجی ہیں۔
فرنٹیئر ورکس آرگنائیزیشن
(FWO):
یہ پاکستان کا سب سے بڑا ٹھیکیدار ادارہ ہے اور اس وقت حکومت کے سارے اہم
Constructional Tenders
جیسے روڈ وغیرہ ان کے حوالے ہیں اس کے ساتھ ساتھ کئی شاہراہوں پر ٹول ٹیکس لینے کے لیے بھی اس ادارے کو رکھا گیا ہے۔
ایس سی او
SCO:
اس ادارے کو پاکستان کے جموں وکشمیر، فاٹا اور Northern Areas میں کمیونیکیشن کا کام سونپا گیا ہے۔
پاکستان کے سابق فوجی صدرجنرل پرویزمشرف نے ریٹائرمنٹ کے بعد (4-5) ہزار افسروں کو مختلف اداروں میں اہم عہدوں پر فائز کیا ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں 56 ہزار سول عہدوں پر فوجی افسر متعین ہیں جن میں 1,600 کارپوریشنز میں ہیں۔
پاکستان رینجرز بھی اسی طرح کاروبار میں بڑھ کر حصہ لے رہی ہے جس میں سمندری علاقے کی 1,800 کلومیٹر لمبی سندھ اور بلوچستان کے ساحل پر موجود جھیلوں پر رسائی ہے۔ اس وقت سندھ کی 20 جھیلوں پر رینجرز کی عملداری ہے۔ اس ادارے کے پاس پیٹرول پمپس اور اہم ہوٹلز بھی ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ FWO کو شاہراہوں پر بل بورڈ لگانے کے بھی پیسے وصول کرنے کا حق حاصل ہے۔
15 فروری 2005 میں پاکستان کے سینیٹ میں ایک رپورٹ پیش کی گئی تھی۔ جس کے مطابق فوج کے کئی ادارے اسٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ بھی نہیں ہیں اور ان کی یہ سرمایہ کاری کسی بھی صورت میں عالمی سرمایہ کاری سے الگ بھی نہیں ہے۔ در ذیل لسٹ سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ افواج پاکستان کیسے اس سرمایہ کاری میں مصروف ہیں۔
آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کے پروجکٹس:
01۔ آرمی ویلفیئر نظام پور سیمنٹ پروجیکٹ
02۔ آرمی ویلفیئر فارماسیوٹیکل
03۔ عسکری سیمینٹ لمٹیڈ
04۔ عسکری کمرشل بینک
05۔ عسکری جنرل انشورنس کمپنی لمٹیڈ
06۔ عسکری لیزنگ لمیٹیڈ
07۔ عسکری لبریکینٹس لمیٹڈ
08۔ آرمی شوگر ملز بدین
09۔ آرمی ویلفیئر شو پروجیکٹ
10۔ آرمی ویلفیئر وولن ملز لاہور
11۔ آرمی ویلفیئر ہوزری پروجیکٹ
12۔ آرمی ویلفیئیر رائس لاہور
13۔ آرمی اسٹینڈ فارم پروبائباد
14۔ آرمی اسٹینڈ فارم بائل گنج
15۔ آرمی فارم رکبائکنتھ
16۔ آرمی فارم کھوسکی بدین
17۔ رئیل اسٹیٹ لاہور
18۔ رئیل اسٹیٹ روالپنڈی
19۔ رئیل اسٹیٹ کراچی
20۔ رئیل اسٹیٹ پشاور
21۔ آرمی ویلفیر ٹرسٹ پلازہ راولپنڈی
22۔ الغازی ٹریولز
23۔ سروسز ٹریولز راولپنڈی
24۔ لیزن آفس کراچی
25۔ لیزن آفس لاہور
26۔ آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کمرشل مارکیٹ پروجیکٹ
27۔ عسکری انفارمیشن سروس
فوجی فاؤنڈیشن کے پروجیکٹس:
01۔ فوجی شوگر ملز ٹنڈو محمد خان
02۔ فوجی شوگر ملز بدین
03۔ فوجی شوگر ملز سانگلاہل
04۔ فوجی شوگر ملز کین اینڈیس فارم
05۔ فوجی سیریلز
06۔ فوجی کارن فلیکس
07۔ فوجی پولی پروپائلین پروڈکٹس
08۔ فاؤنڈیشن گیس کمپنی
09۔ فوجی فرٹیلائیزر کمپنی صادق آباد ڈہرکی
10۔ فوجی فرٹیلائیزر انسٹیٹیوٹ
11۔ نیشنل آئڈنٹٹی کارڈ پروجیکٹ
12۔ فاؤنڈیشن میڈیک کالج
13۔ فوجی کبیر والا پاور کمپنی
14۔ فوجی گارڈن فرٹیلائیزر گھگھر پھاٹک کراچی
15۔ فوجی سیکیورٹی کمپنی لمیٹڈ
شاہین فاؤنڈیشن کے پروجیکٹس:
01۔ شاہین انٹرنیشنل
02۔ شاہین کارگو
03۔ شاہین ایئرپورٹ سروسز
04۔ شاہین ایئرویز
05۔ شاہین کامپلیکس
06۔ شاہین پی ٹی وی
07۔ شاہین انفارمیشن اور ٹیکنالوجی سسٹم
بحریہ فاؤنڈیشن کے پروجیکٹس:
01۔ بحریہ یونیورسٹی
02۔ فلاحی ٹریڈنگ ایجنسی
03۔ بحریہ ٹریول ایجنسی
04۔ بحریہ کنسٹرکشن
05۔ بحریہ پینٹس
06۔ بحریہ ڈیپ سی فشنگ
07۔ بحریہ کامپلیکس
08۔ بحریہ ہاوسنگ
09۔ بحریہ ڈریجنگ
10۔ بحریہ بیکری
11۔ بحریہ شپنگ
12۔ بحریہ کوسٹل سروس
13۔ بحریہ کیٹرنگ اینڈ ڈیکوریشن سروس
14۔ بحریہ فارمنگ
15۔ بحریہ ہولڈنگ
16۔ بحریہ شپ بریکنگ
17۔ بحریہ ہاربر سروسز
18۔ بحریہ ڈائیونگ اینڈ سالویج انٹرنیشنل
19۔ بحریہ فاؤنڈیشن کالج بہاولپور
پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں موجود کنٹونمنٹ ایریاز،ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹیز،عسکری ہاؤسنگ پراجیکٹس اور زرعی اراضی اوپر دی گئی لسٹ کے علاوہ ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاک فوج کے تحت چلنے والے کاروباری ادارے،خسارے،کرپشن اور بدانتظامی میں پاکستان کے سٹیل مل اور پاکستان ایئر لائن (پی آئی اے) سمیت کسی سرکاری ادارے سے پیچھے نہیں ہیں۔کہا جاتا ہے کہ اِن کا خسارہ کم دکھانے کا طریقہ اندرونِ مُلک اور بیرونِ مُلک سے لیے ہُوئے قرضوں کو ایکُوئیٹی دکھا کر بیلنس شیٹ بہتر دکھانے کا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ آج کی تاریخ میں بھی خسارے میں ہیں۔
یہ ایک ٹرینڈ ہے جو پچھلے 30 سال میں بار بار ریپیٹ ہوتا ہے اور ہر آڈٹ سے پہلے گورنمنٹ سے بیل آؤٹ پیکج نہ لیا جائے یا اندرونی و بیرونی قرضے نہ ہوں تو خسارہ ہر سال اربوں تک پہنچا کرے۔ لیکن ہر گورنمنٹ خود ان کو بیل آؤٹ پیکج دینے پر مجبور ہوجاتی ہے اور جوحکومت بیل آؤٹ پیکج دینے میں تامل کرے تو وہ حکومت گرادی جاتی ہے۔
سول حکومتوں کو دفاعی بجٹ کے بعد آرمی کے کاروباروں کو ملینز آف ڈالرز کے بیل آؤٹ پیکج بھی دینے پڑتے ہیں۔ ریٹائرڈ فوجیوں کی پنشنز بھی سول بجٹ سے ادا کی جاتی ہیں۔ پھر بیرونی قرضے اور اُنکا سُود وغیرہ ادا کر کے حکومت کے پاس جی ڈی پی کا کم و بیش 40% بچتا ہے پھر خسارہ پُورا کرنے اور ملک چلانے اور اگلے سال کے اخراجات کے لیے نیا قرض لیا جاتا ہے۔
یہ ایک ایسا چکروی ہے جس میں پاکستانی قوم آہستہ آہستہ ایسا پھنستاچلا جا رہا ہے اور ہر گُزرتا سال پچھلے سال سے مُشکل ہوتا جا رہا ہے۔
جولائی 2016 میں پاکستان کے سینیٹ میں وزارتِ دفاع نے تحریری جواب میں بتایا ہے کہ پاکستان کی فوج کے زیر انتظام 50 کاروباری کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔
اس وقت کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے تحریری جواب میں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی، آرمی ویلفیئر ٹرسٹ، فوجی فاؤنڈیشن اور بحریہ فاؤنڈیشن کے زیر انتظام کاروباری اداروں کی تفصیلات فراہم کیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزارتِ دفاع نے بتایا کہ ان کاروباری اداروں میں رہائشی سکیمیں، فارمز، کھاد، چینی اور سیمنٹ بنانے کے کارخانے، ریسٹورنٹ، بینک، انشورنس کمپنی، کپڑے بنانے کے کارخانے، بجلی گھر، گوشت پراسیسنگ یونٹ اور سکیورٹی فراہم کرنے کی کمپنیاں شامل ہیں۔
وزیر دفاع کا کہنا تھاکہ ملک کی آمدن میں سے خطیر رقم دفاعی ضروریات پوری کرنے کے لیے فوج کو فراہم کی جاتی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کی فوج اپنی پیشہ وارانہ مصروفیات کے ساتھ ساتھ مختلف کاروباری ادارے بنانے اور انھیں وسعت دینے میں دلچسپی لیتی ہے؟
پاکستان میں دفاعی اُمور کی تجزیہ کار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ وہ ممالک جہاں فوج کو مطلوبہ وسائل فراہم نہیں کیے جاتے وہاں فوج کو محدود پیمانے پر کاروبار کرنے کی اجازت دی جاتی ہے لیکن پاکستانی حکومت میں فوج کو پورے وسائل فراہم کرتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ 50 کی دہائی میں یہ ادارے فوج سے ریٹائر ہونے والے افسران کو مراعات فراہم کرنے کے لیے بنائے گئے تھے لیکن ریٹائرڈ فوجیوں کو پینشن بھی ملتی ہے۔
عائشہ صدیقہ نے کہا کہ ’پیشہ وارانہ افواج اپنے آپ کو کاروباری سرگرمیوں میں مصروف نہیں کرتیں اور فوج کو ملنے والے فنڈ کا آڈٹ تو ہوتا نہیں اس لیے یہ بھی نہیں معلوم کہ کیا فوج کو ملنے والا بحٹ کہیں ان نجی کاروباری اداروں میں تو استعمال نہیں ہوتا۔ یہ بھی واضح طور پر معلوم نہیں ہے کہ ان میں کتنے ریٹائرڈ اور کتنے حاضر سروس افراد شامل ہیں۔‘
ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ فوج کو کاروباری ادارے بنانے کا کوئی جواز موجود نہیں ہے اور اس سے خود فوج کے لیے پیشہ ورانہ مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
2005 میں پاکستان کے ایوان بالا میں سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ہی پی پی پی کی جانب سے فوج کی کاروباری کمپنیوں کے بارے میں سوال اٹھایا تھا اور اس وقت کے وزیرِ دفاع راؤ سکندر نے فوج کی ان کاروباری کمپنیوں کی تعداد 55 بتائی تھی۔
2018میں فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بھی فوج کے کاروباری سرگرمیوں پر سوال اٹھایا تھا۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا ہے کہ دنیا کی کوئی فوج کاروباری سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوتی۔ پاک فوج کیوں سیمنٹ اور گوشت فروخت کر رہی ہے؟۔
پاک فوج کی کاروباری سرگرمیوں کا سب سے بڑا اسکینڈل رواں سال سامنے آیا۔
امریکا میں مقیم پاکستانی صحافی احمد نورانی نے اپنے ایک تحقیقاتی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا کہ سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین ریٹائرڈ جنرل عاصم سلیم باجوہ اور اسکے پانچ بھائی، تین بیٹے اور اہلیہ چار ممالک میں 99 کمپنیوں پر مشتمل ایک سلطنت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھاکہ 130سے زائد فرنچائز، 15 تجارتی اور رہائشی املاک، امریکا میں شاپنگ سینٹرز اور دو مکانات۔ اس کے علاوہ، اس کے بڑھتی ہوئی کاروباری سلطنت میں پیزا فرنچائز، انسانی وسائل، ٹیلی کام، کان کنی، تعمیر، رئیل اسٹیٹ، اور یہاں تک کہ ایک عوامی رائے اور تحقیقاتی کمپنی بھی شامل ہیں۔
انکشاف کے مطابق، باجوہ خاندان کی ملکیت میں چلنے والی کمپنیوں نے اپنے کاروبار کو تیار کرنے کے لئے $ 52.2 ملین اور امریکہ میں جائیدادوں کی خریداری کے لئے 14.5 ملین ڈالر خرچ کیے۔ باجوہ خاندان کے کاروبار کو مختلف کمپنیوں کے ذریعے باجوکو گروپ کے نام سے منسوب کیا گیا۔ باجوہ کے چھوٹے بھائیوں نے اپنا پہلا پاپا جان کا پیزا ریستوران 2002 میں کھولا، جس سال ریٹائرڈ جنرل نے لیفٹیننٹ کرنل کی حیثیت سے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ کام کیا۔ 53 سالہ ندیم باجوہ جس نے پیزا ریستوراں کی فرنچائز کے لئے ڈیلیوری ڈرائیور کی حیثیت سے آغاز کیا تھا۔ ان کے بھائی اور عاصم باجوہ کی اہلیہ اور بیٹے ایک بزنس ایمپائر ہیں جس نے چار ممالک میں 99 کمپنیاں قائم کیں، جس میں پیزا فرنچائز سمیت 393 ملین ڈالر کے 133 ریستوران شامل ہیں۔ 99 کمپنیوں میں سے 66 مرکزی کمپنیاں ہیں جبکہ 33 کمپنیاں کچھ اہم کمپنیوں کی برانچ کمپنیاں ہیں، اور پانچ اب کام نہیں کررہی ہیں۔
اس اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین ریٹائرڈ جنرل عاصم سلیم باجوہ جو اس وقت پاکستان کے ویزر اعظم عمران خان کے مشیر بھی تھے نے مشیر کے عہدے سے استعفیٰ دیدیا لیکن سی پیک چیئرمیں کے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیاتھا۔
اس بڑے اسکینڈل کے باوجود پاکستانی فوج کے ترجمان آئی ایس پی آر جو ہر معاملے پر ٹویٹ کرتی ہے اس معاملے پرمکمل خاموش تھے جس سے صاف ظاہر ہے کہ پاک فوج ایک پیشہ ورانہ فوج نہیں بلکہ ایک کمرشل آرمی ہے۔