Site icon News Intervention

نام نہاد آزاد کشمیر میں علماء مشائخ کونسل کی طرف سے اسلامی پالیسی یا عورتوں کو غلامی میں جھکڑنے کا ہتھکنڈا – تحریر: کامریڈ سمعیہ

نام نہاد آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کے آتے ہی پہلے مہینے میں ہی عورتوں پر پابندیاں عائد کرنا اس چیز کی نشاندہی ہے کہ ریاست جموں کشمیر کے اس ٹکڑے کو ہمیشہ کے لیے غلام رکھنے کی سوچی سمجھی سازش ہے, خواتین ہمارے معاشرے کا 52 فیصد حصہ ہیں اگر کسی معاشرے کے 52 فیصد حصے کو سیاسی سماجی اور دیگر سرگرمیوں سے دور رکھا جائے تو وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا, بلکل اسی طرح اس نام نہاد آزاد کشمیر کو بھی لولا لنگڑا کرنے کی پالیسی بنائی جا رہی ہے۔ اور اس پالیسی کو لیکر ہمارے لوگ جنھیں مذہب کا جھانسا دے کر 74 سالوں سے الو بنایا جا رہا ہے بڑے ہی خوش ہیں کہ اسلامی نظام رائج ہو رہا ہے, برائی کا خاتمہ ہو گا۔

تو مجھے بتائیں کہ کونسی برائی کی بات ہو رہی؟؟
کیا کبھی عورتوں نے مردوں کا گینگ ریپ کیا؟ کیا کبھی کسی عورت نے مرد کو ہراساں کیا؟ کیا کسی عورت نے مرد کو شادی/محبت سے مکر جانے سے اسے کڈنیپ کیا ہے یا اس کے چہرے پر ایسڈ ڈالا ہے؟ کیا عورت مرد کو بلیک میل کرتی ہے؟ کیا عورت قبر سے مردے نکال کر ان سے بد فعالی کرتی ہے؟ کیا عورت مدرسوں میں سکولوں میں معصوم بچے بچیوں کو اپنے حوس کا شکار بناتی ہے؟

اگر عورت یہ سب نہیں کرتی تو پھر عورتوں پر پابندیاں کیوں؟؟
ان پالیسیز میکرز کی عورتیں یا تو یورپ میں مقیم ہیں یا پھر اسلام آباد میں عیش سے رہ رہی ہیں۔ ان کی ہر پالیسی غریب اور محنت کش طبقے کے لیے ہی کیوں؟ اور مجھے بتایا جایا کہ قرآن کی کس آیت میں لکھا عورتیں برقع پہنیں؟ کہاں برقعے کا ذکر ہے؟؟ ایک عورت جو واحد کفیل ہے اپنے گھرانے کی دن بھر محنت مزدوری کرتی ہے, وہ گھر سے نکلے کی لیے محرم کہاں سے لائی گی؟؟

اور ہاں اگر عورتوں کے لیے عرب کا کلچر ہے تو مردوں کے لیے مغربی لباس کیوں؟
میرے کشمیر کے ہم وطنو یہ درخواست کرتی ہوں کہ آپ ان لوگوں کی ایسی پالیسیز پر جوش سے نہیں بلکہ ہوش سے کام لیں ان پالیسیز کے پیچھے چھپے مکرو چالوں کو سمجھیں۔ یہ ہم ریاستیوں کو مستقل غلام رکھنے کی ایک سازش ہے جسے ہم کبھی قبول نہیں کریں گے۔

Exit mobile version