Site icon News Intervention

پاکستان میں جبری گمشدگی سے متعلقہ بل پارلیمنٹ سے منظوری کے بعدلاپتہ ہوگیا

پاکستان کے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے پیر کے روز انکشاف کیا کہ جبری گمشدگیوں سے متعلق ایک بل جسے حال ہی میں قومی اسمبلی سے منظور کیا گیا تھا، ”لاپتہ“ ہوچکا ہے۔

وفاقی وزیر نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے لاپتہ افراد کے حوالے سے بل تیار کیا تھا اور اسے ”متعلقہ“ قائمہ کمیٹی اور قومی اسمبلی نے پاس کیا تھا۔ لیکن سینیٹ کو بھیجے جانے کے بعد بل لاپتہ ہو گیا تھا۔

ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ تاہم اب اطلاعات ہیں کہ یہ بل سینیٹ سیکرٹریٹ میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بل 8نومبر 2021 کو نیشنل اسمبلی سے پاس کیا تھا اور اس کا مقصد پاکستان پینل کوڈ (PPC) اور ضابطہ فوجداری میں ترامیم کرنا ہے۔ اسے جون 2021 میں وزیر داخلہ نے قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔ اگرچہ ابتدائی طور پر کسی شخص کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنانے کے بارے میں جھوٹی شکایت یا غلط معلومات درج کرنے سے متعلق کوئی شق نہیں تھی، بعد ازاں بل میں ایک شق شامل کر دی گئی کہ یہ ایک قابل تعزیر جرم ہے جس کی سزا پانچ سال قید اور 500,000 روپے تک جرمانہ ہے۔

مجوزہ قانون پی پی سی میں“جبری گمشدگی”کی وضاحت کے لیے ایک نیا سیکشن 52B داخل کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ اس بل میں جبری گمشدگی کو اس طرح واضح کیا گیا تھا کہ جبری گمشدگی غیر قانونی اور قانونی اختیار کے بغیر گرفتاری،حراست،اغوا یا ریاستی ایجنٹ کے ذریعے یا کسی شخص یا افراد کے گروپ کے ذریعے آزادی سے محروم رکھنا کے نام ہے۔

پاکستان میں“جبری گمشدگی”کو جرم قرار دینے کے لیے قانون کا نفاذ انسانی حقوق کے اداروں، خاص طور پر ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا دیرینہ مطالبہ ہے۔

بلوچستان اور فاٹا سے کئی سال قبل شروع ہونے والی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ گزشتہ برسوں کے دوران اسلام آباد سمیت بڑے شہری مراکز تک پھیل گیا ہے۔ مارچ 2011 میں قائم کیے گئے جبری گمشدگیوں پر انکوائری کمیشن نے دعویٰ ہے کہ کمیشن نے لاپتہ ہونے والوں میں سے بہت سے لوگوں کا سراغ لگانے میں کامیابی حاصل کی ہے، لیکن انسانی کارکنوں کا کہناہے کہ یہ اپنے اختیار نامہ کے دوسرے حصے میں یعنی ان اغوا کے مرتکب افراد کی شناخت اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے میں ناکام رہا ہے۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کچھ کارکنوں کا اندازہ ہے کہ کمیشن کے پاس اب بھی 2,000 سے زیادہ غیر حل شدہ کیسز باقی ہیں۔

پاکستان میں سیاسی و سماجی حلقے اور انسانی حقوق تنظیموں کا کہنا کہ انسانی حقوق کے وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری اور دیگر نے ملکر یہ جبری گمشدگیوں سے متعلق بل تیار کیا تو اسے پارلیمنٹ میں پیش کرنے کیلئے ان کو اپنی پارٹی کے اندر کافی مشکلات اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ وافاقی وزیر قانون فرخ نسیم نے بل کے مسودے کو اپنے آفس چھپا دیاتھا تاکہ اسے پارلیمنٹ میں پیش نہ کیا جاسکے ۔ کہاجاتا ہے کہ نسیم فرخ عسکری اسٹیبلشمنٹ کا اہم مہرہ ہے ۔

واضع رہے کہ بلوچستان میں جبری طور پر لاپتہ کئے گئے افراد کے لواحقین کی تنظیم ”وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز“ گذشتہ دس سالوں سے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کیمپ لگائے جدوجہد کر رہی ہے اور تنظیم کا موقف ہے کہ پچاس ہزار سے زائد بلوچ پاکستان کی خفیہ سیکورٹی ایجنسیوں نے لاپتہ کئے ہیں اور 20 ہزار سے زائد لاپتہ افراد کی لاشیں پھینکی گئی ہیں جن میں کچھ کو عقوبت خانوں میں تشد د سے ہلاک کیا گیا وقار کچھ کو جعلی سیکورٹی فورسزمقابلوں میں ہلاک کیا گیا ہے۔

اسی طرح سندھ اور خیبر پختونخو امیں بھی مسنگ پرسنز کی تعداد ہزاروں میں پہنچ گئی ہے۔اور ہر روز بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخو ا میں سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں لوگوں کی جبری گمشدگیاں رپورٹ ہورہی ہیں۔

Exit mobile version