Site icon News Intervention

پاکستان کی جبری قبضہ کا خاتمہ حتمی مقصد ہے، بی ایل ایف ترجمان گہرام بلوچ کا خصوصی انٹرویو


منیش رائے کے ساتھ بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے ترجمان میجر گہرام بلوچ کا خصوصی انٹرویو

بلوچستان لبریشن فرنٹ (BLF) سب سے پرانے اور بڑے بلوچ مسلح علیحدگی پسند گروپوں میں سے ایک ہے جو اکثر پاکستان کے شورش زدہ صوبہ بلوچستان میں پاکستانی افواج اور سرکاری تنصیبات کے خلاف مسلح حملے کرتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں بی ایل ایف نے حکومتی افواج اور چین۔پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC)، اسلام آباد کا عزیز ترین قتصادی منصوبہ، کے خلاف اپنے حملے تیز کر دیے ہیں۔ بلوچستان کے کسی نامعلوم مقام سے مشرق وسطیٰ اور پاک افغان خطے کے کالم نگار اور جیو پولیٹیکل نیوز ایجنسی کے ایڈیٹر منیش رائے کو ایک خصوصی انٹرویو دیا ہے ۔ بی ایل ایف کے ترجمان کا تفصیلی انٹرویو درج ذیل ہے جسے “سنگر میڈیا “ کے شکریہ کے ساتھ شائع کیا جارہا ہے ۔

منیش رائے : مسلح جدوجہد کے لیے مستقبل کا لائحہ عمل کیا ہو گا؟

میجرگہرام بلوچ: کسی بھی تنظیم کا لائحہ عمل حالات کے تقاضوں کے مطابق شکل اختیار کرتا ہے۔ لہٰذا یہ ہمارے قومی مقصد یعنی بلوچستان کی آزادی کے حصول کے لیے درکار حالات و واقعات کے مطابق تشکیل پائے گا۔

منیش رائے: اگر پاکستانی حکومت بلوچستان کو مزید خودمختاری دینے کے لیے تیار ہے تو کیا اس بات کا کوئی امکان ہے کہ بی ایل ایف مسلح جدوجہد ترک کرنے پر غور کر سکتی ہے؟

میجرگہرام بلوچ: نہیں، ہماری جدوجہد ہمارے اپنے قومی وسائل میں پاکستان سے بڑا حصہ مانگنے کے لیے نہیں ہے۔ اس کے بجائے ہماری جدوجہد پاکستان کے جبری قبضہ اور استحصال سے نجات کے لیے ہے۔ بی ایل ایف بلوچ قوم کی قومی اقتدار اعلیٰ اور تشخص پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔

منیش رائے: گوادر اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں ہونے والے حالیہ عوامی احتجاج کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟

میجرگہرام بلوچ: گوادر یا مقبوضہ بلوچستان میں کسی اور جگہ پر ہونے والے عوامی احتجاج اس حقیقت کا مظہر ہیں کہ بلوچ عوام پاکستان کی استعماری حکمرانی، اس کے قومی وسائل کی لوٹ مار اور قابض افواج کے غیر انسانی اور وحشیانہ رویے سے بیزار ہیں۔

منیش رائے: اکثر کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے کی طرف سے بلوچستان کے قدرتی وسائل کا استحصال کیا جا رہا ہے لیکن اس خطے کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ اس کو کیسے درست کیا جا سکتا ہے؟

میجرگہرام بلوچ: یہ بلوچستان کی آزادی سے ہی درست ہو سکتا ہے۔ ہم اسے درست کرنے کے لیے کسی اور طریقے پر غور نہیں کرتے کیونکہ محکوم قوموں کے قدرتی وسائل کو لوٹنا اور وہاں کے لوگوں کو پسماندہ رکھنا استعمار کی فطری خصوصیت ہے۔

منیش رائے: اگر پاکستانی فورسز نے بلوچستان میں تمام فوجی آپریشن بند کردیئے تو اس صورت میں بی ایل ایف مستقبل قریب میں کسی قسم کی جنگ بندی پر غور کر سکتی ہے؟

میجرگہرام بلوچ: تنظیم حقائق کی بنیاد پر پالیسی بناتا ہے، کسی مفروضے پر نہیں۔ اگر مستقبل میں ایسا کوئی واقعہ پیش آیا تو بی ایل ایف ایسے فیصلے کی وجوہات، اس کے پیچھے دشمن کی نیت اور بلوچ قومی مقصد یعنی بلوچستان کی آزادی پر اس کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسی بنائے گی۔

منیش رائے: بلوچستان اور خاص طور پر گوادر چین کے سی پیک منصوبے کا مرکز ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ سی پیک خطے میں کسی قسم کی خوشحالی لائے گا؟

میجرگہرام بلوچ: چین پاکستان اقتصادی راہداری بلوچ قوم اور خطے کیلئے کوئی خوشحالی نہیں لائے گی۔ اس کے بجائے یہ صرف مقبوضہ بلوچستان کے وسائل کےاستحصال میں تیزی لائے گا۔ یہ پاکستان کو زمینوں پر قبضہ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی بالخصوص گوادر کی بلوچ آبادی کو جبری بے دخل کرنے، ختم اور ضم کرنے کے عمل کو تیز کرنے میں سہولت فراہم کرے گا۔ CPEC خطے میں فوجی اور اقتصادی تسلط کے لیے چین، علاقائی اور بین الاقوامی طاقتوں کے درمیان دشمنی کو بھی تیز کرے گا جو بلوچستان کو ان کے مفادات کے لیے میدان جنگ بنا دے گا۔

منیش رائے: کیا تمام بلوچ مسلح گروہ اپنی جدوجہد میں متحد ہیں؟

میجرگہرام بلوچ: بظاہر تمام مسلح بلوچ تنظیمیں بلوچستان کی آزادی کے لیے ایک پیج پر ہیں۔ تاہم، ان میں سے کچھ نے بی ایل ایف کے ساتھ باضابطہ اتحاد بنایا ہے جسے براس براس کہا جاتا ہے۔ کچھ تنظیمیں اب بھی براس سے باہر ہیں۔

منیش رائے: افغانستان میں طالبان کی حکومت کے ساتھ۔ آپ بلوچ مقصد پر اس کے اثرات کو کیسے دیکھتے ہیں؟

میجرگہرام بلوچ: اگرچہ افغانستان مقبوضہ بلوچستان کا سرحدی ہمسایہ ہے اور عام طور پر مشکل وقت میں بلوچ قوم پرستوں کے لیے موافق پناہ گاہ رہا ہے۔ تاہم بلوچ آزادی کی تحریک کا انحصار افغانستان کی سیاسی صورتحال پر نہیں ہے۔ افغانستان میں حالیہ تبدیلیوں کے اثرات بلوچ آزادی کی تحریک سمیت پورے خطے کی صورتحال پر ضرور پڑیں گے لیکن ضروری نہیں کہ منفی اثرات مرتب ہوں۔

منیش رائے: بلوچ کارکنوں کی جبری گمشدگی کے سب سے زیادہ واقعات بلوچستان میں ہوتے ہیں۔ آپ کے خیال میں جمہوری دنیا اور انسانی حقوق کے گروپوں کو اس معاملے کو کیسے لینا چاہیے؟

میجرگہرام بلوچ: بلا شبہ ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں بلوچ خصوصاً سیاسی کارکنان اور طلباء پاکستان کی فوج، نیم فوجی دستوں اور خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں لاپتہ ہو چکے ہیں۔ لاپتہ افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان بحیثیت ریاست جبری گمشدگیوں کے جرائم کا ذمہ دار ہے کیونکہ تمام ریاستی ستون، براہ راست یا بالواسطہ، جبری گمشدگیوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ جبری گمشدگیوں کو بلوچ عوام کو خوفزدہ کرنے، ان کی آواز کو خاموش کرانے اور بلوچ آزادی کی تحریک کو دبانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
پاکستانی فوج، جبری گمشدگیوں کے علاوہ، ماورائے عدالت قتل، بمباری اور دور دراز پہاڑی دیہاتوں کو نذر آتش کرنے، لوگوں کے ریوڑ ذبح کرنے اور لوٹنے، ان کا قیمتی سامان چھیننے کو بھی پالیسی کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ جمہوری دنیا کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو یو این او اور دیگر عالمی فورمز میں اٹھائے، پاکستان پر اقتصادی، مالی اور فوجی پابندیاں عائد کرے۔ انسانی حقوق کے گروپوں کو چاہیے کہ وہ مقبوضہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے معاملے کو اجاگر کریں، جمہوری دنیا میں عوام کو متحرک کریں اور اس طرح حکومتوں، یو این او اور بڑی طاقتوں پر جبری گمشدگیوں اور دیگر جنگی جرائم کے لیے پاکستان کے خلاف کارروائی کے لیے اخلاقی دباؤ ڈالیں۔

Exit mobile version