سانحہ ہوشاپ کے متاثرہ خاندان نے آج تربت پریس کلب میں سول سوسائٹی کے کنوینر گلزار دوست کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہوشاپ میں سی ٹی ڈی کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے بچوں کو سانحہ ہوشاپ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ہمارے بچوں کا قاتل ایف سی ہے اور ایف سی ان گرفتار بچوں کو بَلّی کا بکرا بناکر اپنے کرتوں کو چھپانے کی ناکام کوشش کررہا ہے۔
انہوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات میڈیکل رپورٹس سے ثابت ہوچکا ہے کہ بچوں کی موت گرنیڈ سے نہیں بلکہ مارٹر گولے سے ہوئی ہے جو ایف سی کی جانب سے فائر کی گئی تھی۔
پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا سانحہ واقعہ کے متعلق جو تحقیقات لواحقین، آل پارٹیز کیچ اور سول سوسائٹی کیچ نے کیا تھا تو انہوں نے اپنے تحقیقات سے یہ بتایا تھا کہ ان لوگوں کو ایف سی کی جانب سے فائر کی گئی مارٹر گولے سے شہید کیا گیا اور اب انہوں نے ایک ڈرامہ رچایا ہے اور سی ٹی ڈی جھوٹ بول رہا ہے اور گرفتار ہونے والے ایاز بلوچ، اویس بلوچ، نبیل بلوچ، سفر بلوچ اور لطیف بلوچ بچوں کے قاتل نہیں ہیں سوسل سوسائٹی، آل پارٹیز اور لواحقین اس کی تردید کرتے ہیں اور بچوں کا قاتل ایف سی ہے اور ایف سی کے ذمہ داروں کو گرفتار کیا جائے اور ہمیں انصاف دیا جائے۔
خیال رہے کہ اکتوبر کے مہینے میں ضلع کیچ کیعلاقے ہوشاپ میں مبینہ مارٹر گولہ لگنے سے دو بچے جان بحق ہوئے تھے، مذکورہ بچوں کے اہلخانہ نے الزام عائد کیا تھا یہ بچے فورسز کی جانب سے مارٹر گولہ لگنے سے جاں بحق ہوئے ہیں۔
بچوں کے قتل کے خلاف بلوچستان بھر میں شدید احتجاج ریکارڈ کیا گیا ہے اس کے علاوہ سینکڑوں کی تعداد میں خواتین اور بچوں نے پہلے ضلع کیچ اور بعد میں کوئٹہ میں لاشوں سمیت احتجاج ریکارڈ کیا گیا۔
سانحہ ہوشاپ کے متعلق بلوچستان ہائی کورٹ کے بینچ نے فیصلہ سناتے ہوئے مکمل تحقیقات کا حکم جاری کرتے ہوئے ڈی سی کیچ حسن جان، اے سی کیچ عقیل کریم نائب تحصیلدار ہوشاپ رسول جان کو معطل کردیا۔
جبکہ گذشتہ روز ایف سی نے 16 دسمبر کو ہوشاپ سے لاپتہ ہونے والے چار افراد کی سی ٹی ڈی کے ہاتھوں گرفتاری کو ظاہر کرتے ہوئے ان کے خلاف ہوشاپ واقعہ اور دیگر کئی الزامات لگائے ہیں۔
اس متعلق مشیر داخلہ بلوچستان میر ضیاء اللہ لانگو نے ہفتہ کو کوئٹہ پریس کلب میں ڈی آئی جی کرائمز برانچ وزیر خان ناصر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ 10اکتوبر 2021کو ہوشاب میں گرینڈ دھماکے میں دو بچے شہید ہوئے تھے جن کے لواحقین سمیت دیگر افراد نے سیکورٹی فورسز کو واقعہ کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا بلوچستان ہائی کورٹ کے احکامات پر کرائمز برانچ نے واقعہ کی تفتیش کرتے ہوئے مرکزی ملزم نبیل ہاشم سمیت چار افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔
ضیالانگو کے مطابق بی ایل ایف کے کہنے پر تربت میں دہشتگردی کی کئی وارداتیں کرنے کا اعتراف بھی کیا ہے انہوں نے کہا کہ سی ٹی ڈی کا واقعہ پر اپنا موقف ہے جسکی وجہ سے انہوں نے اپنا بیان جاری کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیکورٹی فورسز اپنی جانوں پر کھیل کر عوام کا تحفظ کر رہی ہیں کچھ عناصر ان قربانیوں کو فراموش کرتے ہوئے فورسز پر بے بنیاد الزامات لگاتے ہیں جو اب ثابت ہوگیا ہے۔
بلوچستان لبریشن فرنٹ نے اس حوالے سے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان پولیس کا پریس ریلیز محض جھوٹ کا پلندہ ہے۔
بی ایل ایف ترجمان کا کہنا تھا کہ ہوشاب واقعہ کیسے پیش آیا تھا یہ حقیقت مقتول بچوں کے ورثاء اور علاقہ کے لوگ بچوں کی لاشوں کے ساتھ کوئٹہ آکر پوری دنیا کو بتا چکے ہیں ان سادہ لوح مظلوموں کو قاتلوں کی گرفتاری، ان کے خلاف مقدمہ کے اندراج اور جھوٹے وعدوں سے دھوکہ دے کر ان کا احتجاج ختم کرانا بھی پوری دنیا نے دیکھ لی۔ یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ فوج، ایف سی اور خفیہ ادارے نہ تو کسی کھٹ پتلی سویلین حکومت کے ماتحت ہیں اور نہ کینگرو کورٹس کو جوابدہ ہیں یہ نام نہاد ادارے نہ اپنے ملکی دستور یا کسی قانون و ضابطہ اور نہ انسانی حقوق و آزادیوں سے متعلق کسی عالمی قانون کے پابند ہیں۔