Site icon News Intervention

جنگی جرائم کے مجرم شامی فوجی کرنل کو جرمن عدالت نے سزا سنا دی

فوٹو : اے ایف پی

جرمنی کی ایک عدالت نے ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کے مقدمے میں ایک شامی فوجی کرنل کو مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی ہے۔

اٹھاون سالہ انور رسلان پر شام کی خانہ جنگی کے دوران 4000 سے زائد افراد کو‘زمین پر جہنم‘ کے نام سے مشہور جیل میں اذیت دینے اور تشدد کرنے کا الزام تھا۔

جرمنی کے شہر کوبلنز میں یہ ایک تاریخی نوعیت کا مقدمہ تھا کیونکہ شام میں ریاستی تشدد کے حوالے سے یہ دنیا کا پہلا مقدمہ ہے۔ اقوام متحدہ کے حقوق کی سربراہ مشیل بیچلیٹ نے سزا کو حق کی تلاش میں‘ایک تاریخی قدم‘ کے طور پر سراہا ہے۔

یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ شام کی بدنام زمانہ الخطیب جیل میں قید مردوں اور عورتوں کو کس کس قسم کا تشدد اور اذیت برداشت کرنی پڑی۔

اس مقدمے کی اہم بات یہ تھی کہ انور رسلان پر الزام تھا کہ انھوں نے سنہ 2011 میں بشارالاسد کی حکومت کے ماتحت بطور ایک اعلیٰ افسر کے حکومت مخالف مظاہروں کو بڑے پیمانے پر پرتشدد طریقے سے کچلا تھا۔ اس مقدمے کے پراسیکیوٹرز کا کہنا ہے کہ ایسے بہت سے مظاہرین اور دیگر افراد جن پر حکومت کی مخالفت کا شبہ تھا، انھیں دمشق میں الخطیب جیل میں حراست میں رکھا گیا جہاں انور رسلان نے ان پر تشدد کا حکم دیا۔

ان پر 58 قتل کے ساتھ ساتھ، عصمت دری اور جنسی زیادتی اور 2011 اور 2012 کے درمیان کم از کم 4000 افراد کو تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

عدالت کا یہ فیصلہ خاص طور پر ان لوگوں کے لیے اہم ہے جو الخطیب سے بھاگ گئے اور مقدمے کے دوران شہادتیں دیں۔ ایک فوجداری عدالت نے اب باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے کہ بشارالاسد حکومت نے اپنے ہی شہریوں کے خلاف ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کیے تھے۔

انور رسلان کو 2019 میں جرمنی میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ انھوں نے اپنے خلاف تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کا قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور انھوں نے دراصل کچھ قیدیوں کی مدد کرنے کی کوشش کی۔

ان کا ٹرائل کئی وجوہات کی بنا پر غیر معمولی تھا۔ یہ شام کے ریاستی تشدد کا جواب دینے کے حوالے سے بے مثال تھا اور یہ لاکھوں شامیوں کی جرمنی آمد سے ممکن ہوا، جو اپنے ہی ملک سے بھاگ گئے تھے۔

تقریباً آٹھ لاک شامی باشندوں اب جرمنی میں رہتے ہیں، وہ اپنے ساتھ انتہائی خوفناک کہانیاں لے کر آئے ہیں۔ ان کہانیوں میں بشارالاسد حکومت کی مخالفت کرنے والوں کے ساتھ کیا ہوا، جرمن انسانی حقوق کے وکلا نے عالمی دائرہ اختیار کے اصول کو استعمال کرتے ہوئے اس کے مقدمے کو عدالت تک پہنچایا۔

عالمی دائرہ اختیار کا اصول ایک ملک میں ہونے والے سنگین جرائم پر دوسرے ممالک میں مقدمات چلانے کی اجازت دیتا ہے۔

•الخطیب جیل ایک زیر زمین حراستی مرکز جنرل سیکیورٹی ڈائریکٹوریٹ کی‘برانچ 251‘ کا حصہ ہے جو شام کی چار اہم انٹیلی جنس ایجنسیوں میں سے ایک ہے۔
• عینی شاہدین اور منحرف افراد کے مطابق یہ دمشق کے مرکزی الخطیب علاقے میں دو عمارتوں پر مشتمل ہے۔
• انور رسلان پر الزام تھا کہ صدر بشارالاسد کے خلاف بغاوت شروع ہونے کے ایک ماہ بعد اپریل 2011 سے ستمبر 2012 میں ان کے منحرف ہونے تک برانچ 251 کے تفتیشی سیکشن کے سربراہ کے طور پر حراست میں لیے گئے افراد پر تشدد کی نگرانی کرتے رہے۔
• اپریل 2011 میں قید ہونے والے شامی صحافی عامر متر نے عدالت کو بتایا کہ‘بغیر کسی منطق کے تشدد کیا جا رہا ہے‘ اور رسلان نے ایک تفتیش کے دوران ان کی آنکھوں پر بندھی پٹی پھاڑ دی، ان کو گالیاں دیں اور ان کے منھ پر تشدد کیا گیا۔

یورپی مرکز برائے آئینی اور انسانی حقوق کے سربراہ وولف گینگ کالیک کا کہنا ہے کہ انصاف کے بارے میں بات کرنا مشکل ہے کیونکہ لاکھوں لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں دسیوں ہزار لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔

لیکن شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس مقدمے نے ان لوگوں کو آواز دی جنھیں بشارالاسد حکومت نے خاموش کرنے کی کوشش کی۔ زندہ بچ جانے والے 50 لوگوں نے کوبلنز میں عدالت میں ثبوت پیش کیے ہیں۔ کیس میں 24 شریک مدعی تھے۔

Exit mobile version