Site icon News Intervention

آپریشن گنجل” دشمن کے 195سے زائد فوجی اہلکار ہلاک کرنے کے بعد 72 گھنٹوں میں مکمل ۔ بی ایل اے


بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے میڈیا میں جاری بیان میں کہا ہے کہ

بلوچ لبریشن آرمی نے 2 فروری 2022 کو شام 8 بجے آپریشن گنجل کا آغاز کیا، جسے بی ایل اے کے مجید بریگیڈ نے 72 گھنٹوں کی طویل لڑائی کے بعد اپنے تمام مقاصد حاصل کرتے ہوئے کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔

آپریشن گنجل میں مجید بریگیڈ کے 16 فدائین نے حصہ لیا، جن میں سے 9 فدائین نوشکی اور 7 پنجگور حملے کا حصہ تھے۔ فدائین نے 72 گھنٹوں کی لڑائی میں مجموعی طور پر دشمن کے دو مختلف کیمپوں پر قبضہ کیا، اس دوران دشمن کے 3 افسران سمیت 195 سے زائد فوجی اہلکار ہلاک کیئے گئے، جن میں سے 90 سے زائد نوشکی میں مارے گئے، نوشکی میں مارے جانے والوں میں تقریباً ایف سی کے 55 اہلکار، کوئٹہ سے بلائے گئے 18 ایس ایس جی کمانڈوز اور 7 فائیو لائٹ کمانڈوز شامل ہیں اور پنجگور میں مجموعی طور پر کم از کم 105 اہلکار ہلاک کیئے گئے، جن میں ایف سی کے 85 اہلکار، 20 ایس ایس جی کمانڈوز شامل ہیں۔ اس دوران ایک فوجی ڈرون مار گرایا گیا، ایک ہیلی کاپٹر کو نشانہ بنایا گیا جسکے گرنے کی تصدیق نہیں ہوسکی، دو بکتربند گاڑیاں تباہ کی گئیں جبکہ دونوں کیمپوں کو جزوی طور پر تباہ کیا گیا۔

آپریشن گنجل کا نام بلوچ لبریشن آرمی کے قلات کیمپ کے کمانڈر ” کمانڈر گنجل عرف کامریڈ مزار ولد لکا سکونت لیاری کراچی” کے نام کے نسبت سے رکھی گئی۔ کمانڈر گنجل مجید بریگیڈ کے ایک فدائی تھے اور نوشکی و پنجگور میں ہونے والے حملوں کا نا صرف حصہ بننے والے تھے بلکہ آپریشنل کمانڈر بھی تھے، لیکن آپ اس آپریشن سے قبل ہی 24 ستمبر کو اپنے پانچ ساتھیوں کے ہمراہ قلات کیمپ کا دفاع کرتے ہوئے دشمن سے ایک طویل لڑائی کے دوران شہید ہوگئے۔

آپریشن گنجل کا بنیادی مقصد نا صرف قابض پاکستان بلکہ پوری دنیا کے سامنے یہ واضح کرنا تھا کہ بلوچ تحریک کس شدت کے حملے کرنے کی استطاعت رکھتی ہے۔ آپریشن گنجل اس امر کا اظہار ہے کہ آج بلوچ نوجوان حصول آزادی کیلئے کس انتہا تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بلوچ تحریک آزادی اپنے سرزمین سے جڑی ہے اور تحریک کے قوت کا سرچشمہ بلوچ عوام ہے۔ یہ تمام فدائین بلوچستان کے تعلیم یافتہ نوجوان تھے، سب اسی زمین پر پیدا ہوئے اور قائدِ کارواں شہید جنرل اسلم بلوچ کے فلسفے پر قائم رہتے ہوئے وطن کی دفاع میں قربان ہوئے۔ یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ یہ تحریک نا ہمسایہ ممالک میں تبدیلیوں سے ختم ہوسکتی ہے اور نا ہی دشمن کے پراکسی قرار دیئے جانے کے پروپگینڈوں سے اس پر کوئی اثر پڑیگا۔ ہم انسانی جان کا احترام کرتے ہیں اور قتل چاہے کسی کا بھی ہو اس سے خوشی حاصل نہیں کرتے، اگر پاکستان خون کے دریا بہانے کے بجائے امن چاہتا ہے تو ہم کسی قابل بھروسہ عالمی ثالث کی موجودگی میں پاکستان کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں، جس میں پاکستان کے فوج کی بلوچستان سے بحفاظت انخلاء اور بلوچستان کی مکمل آزادی کے ایجنڈے پر ہم بات چیت کرنے کیلئے تیار ہیں۔

اگر پاکستان آرمی اسی طرح کشت و خون پر تلا رہا تو ہم خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے اگلے حملے اس سے بھی شدید تر ہونگے اور اپنے وطن کی دفاع کیلئے ہم یہ جنگ پاکستان کے کسی بھی کونے تک لیجانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہم اہلِ پنجاب کو بھی یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو جنرلوں کا ایندھن بننے نا دیں۔ اپنے فوج پر بلوچستان سے انخلا کا دباو ڈالیں۔ تمہاری فوج یہاں اپنے قبضے کو قائم رکھنے کیلئے بنگلہ دیش کے طرز پر بلوچ نسل کشی، ریپ اور لوٹ مار میں مصروف ہے۔

بی ایل اے چین کو ایک بار پھر یہ وارننگ دیتی ہے کہ وہ بلوچستان کے وسائل لوٹنے اور بلوچستان پر پاکستانی قبضے کو مستحکم کرنے کی اپنے پالیسیوں سے دستبردار ہوجائے، ورنہ اسکے مفادات ہمارے نشانے پر ہونگے۔

آپریشن گنجل کا آغاز دو فروری کو شام آٹھ بجے بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ نے اس وقت کیا جب بریگیڈ کے دو مختلف یونٹوں نے نوشکی اور پنجگور فرنٹیئرکور ہیڈ کوارٹرز پر ایک ساتھ حملہ کردیا۔ حملے کا آغاز نوشکی ہیڈ کوارٹرز کے مرکزی دروازے پر فدائی میرین جمالدینی عرف زگرین سکنہ نوشکی نے بارود سے بھری گاڑی ٹکرا کر کیا، جس کے نتیجے میں کیمپ کا مرکزی دروازہ تباہ اور حفاظت پر معمور تمام فوجی اہکار ہلاک ہوگئے۔ جسکے بعد یونٹ کمانڈر فدائی بادِل بلوچ ولد ابراھیم عرف ریاست سکنہ ہوشاب کی قیادت میں تمام فدائین کیمپ میں داخل ہوئے۔ ان فدائین میں عزیز زہری عرف بارگ ولد عارف سکنہ خضدار، انیل بلوچ عرف بالاچ ولد عیسیٰ سکنہ دشت تربت، مراد آجو عرف بابا ولد آدم سکنہ بالگتر پنجگور، یاسر نور عرف سیف ولد حاجی نوربخش سکنہ الندور بلیدہ، ابرھیم بلوچ عرف کبیر ولد رسول بخش سکنہ گچک، دیدگ بہار عرف روف ولد گنگزار سکنہ شاپک تربت، بلال بلوچ عرف واحد ولد دلمراد سکنہ کیچ تجابان شامل تھے.

آپریشن گنجل میں مجید بریگیڈ کے 16 فدائین نے حصہ لیا، جن میں سے 9 فدائین نوشکی اور 7 پنجگور حملے کا حصہ تھے۔ فدائین نے 72 گھنٹوں کی لڑائی میں مجموعی طور پر دشمن کے دو مختلف کیمپوں پر قبضہ کیا، اس دوران دشمن کے 3 افسران سمیت 195 سے زائد فوجی اہلکار ہلاک کیئے گئے، جن میں سے 90 سے زائد نوشکی میں مارے گئے، نوشکی میں مارے جانے والوں میں تقریباً ایف سی کے 55 اہلکار، کوئٹہ سے بلائے گئے 18 ایس ایس جی کمانڈوز اور 7 فائیو لائٹ کمانڈوز شامل ہیں اور پنجگور میں مجموعی طور پر کم از کم 105 اہلکار ہلاک کیئے گئے، جن میں ایف سی کے 85 اہلکار، 20 ایس ایس جی کمانڈوز شامل ہیں۔ اس دوران ایک فوجی ڈرون مار گرایا گیا، ایک ہیلی کاپٹر کو نشانہ بنایا گیا جسکے گرنے کی تصدیق نہیں ہوسکی، دو بکتربند گاڑیاں تباہ کی گئیں جبکہ دونوں کیمپوں کو جزوی طور پر تباہ کیا گیا۔

آپریشن گنجل کا نام بلوچ لبریشن آرمی کے قلات کیمپ کے کمانڈر ” کمانڈر گنجل عرف کامریڈ مزار ولد لکا سکونت لیاری کراچی” کے نام کے نسبت سے رکھی گئی۔ کمانڈر گنجل مجید بریگیڈ کے ایک فدائی تھے اور نوشکی و پنجگور میں ہونے والے حملوں کا نا صرف حصہ بننے والے تھے بلکہ آپریشنل کمانڈر بھی تھے، لیکن آپ اس آپریشن سے قبل ہی 24 ستمبر کو اپنے پانچ ساتھیوں کے ہمراہ قلات کیمپ کا دفاع کرتے ہوئے دشمن سے ایک طویل لڑائی کے دوران شہید ہوگئے۔

آپریشن گنجل کا بنیادی مقصد نا صرف قابض پاکستان بلکہ پوری دنیا کے سامنے یہ واضح کرنا تھا کہ بلوچ تحریک کس شدت کے حملے کرنے کی استطاعت رکھتی ہے۔ آپریشن گنجل اس امر کا اظہار ہے کہ آج بلوچ نوجوان حصول آزادی کیلئے کس انتہا تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بلوچ تحریک آزادی اپنے سرزمین سے جڑی ہے اور تحریک کے قوت کا سرچشمہ بلوچ عوام ہے۔ یہ تمام فدائین بلوچستان کے تعلیم یافتہ نوجوان تھے، سب اسی زمین پر پیدا ہوئے اور قائدِ کارواں شہید جنرل اسلم بلوچ کے فلسفے پر قائم رہتے ہوئے وطن کی دفاع میں قربان ہوئے۔ یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ یہ تحریک نا ہمسایہ ممالک میں تبدیلیوں سے ختم ہوسکتی ہے اور نا ہی دشمن کے پراکسی قرار دیئے جانے کے پروپگینڈوں سے اس پر کوئی اثر پڑیگا۔ ہم انسانی جان کا احترام کرتے ہیں اور قتل چاہے کسی کا بھی ہو اس سے خوشی حاصل نہیں کرتے، اگر پاکستان خون کے دریا بہانے کے بجائے امن چاہتا ہے تو ہم کسی قابل بھروسہ عالمی ثالث کی موجودگی میں پاکستان کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں، جس میں پاکستان کے فوج کی بلوچستان سے بحفاظت انخلاء اور بلوچستان کی مکمل آزادی کے ایجنڈے پر ہم بات چیت کرنے کیلئے تیار ہیں۔

اگر پاکستان آرمی اسی طرح کشت و خون پر تلا رہا تو ہم خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے اگلے حملے اس سے بھی شدید تر ہونگے اور اپنے وطن کی دفاع کیلئے ہم یہ جنگ پاکستان کے کسی بھی کونے تک لیجانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہم اہلِ پنجاب کو بھی یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو جنرلوں کا ایندھن بننے نا دیں۔ اپنے فوج پر بلوچستان سے انخلا کا دباو ڈالیں۔ تمہاری فوج یہاں اپنے قبضے کو قائم رکھنے کیلئے بنگلہ دیش کے طرز پر بلوچ نسل کشی، ریپ اور لوٹ مار میں مصروف ہے۔

بی ایل اے چین کو ایک بار پھر یہ وارننگ دیتی ہے کہ وہ بلوچستان کے وسائل لوٹنے اور بلوچستان پر پاکستانی قبضے کو مستحکم کرنے کی اپنے پالیسیوں سے دستبردار ہوجائے، ورنہ اسکے مفادات ہمارے نشانے پر ہونگے۔

آپریشن گنجل کا آغاز دو فروری کو شام آٹھ بجے بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ نے اس وقت کیا جب بریگیڈ کے دو مختلف یونٹوں نے نوشکی اور پنجگور فرنٹیئرکور ہیڈ کوارٹرز پر ایک ساتھ حملہ کردیا۔ حملے کا آغاز نوشکی ہیڈ کوارٹرز کے مرکزی دروازے پر فدائی میرین جمالدینی عرف زگرین سکنہ نوشکی نے بارود سے بھری گاڑی ٹکرا کر کیا، جس کے نتیجے میں کیمپ کا مرکزی دروازہ تباہ اور حفاظت پر معمور تمام فوجی اہکار ہلاک ہوگئے۔ جسکے بعد یونٹ کمانڈر فدائی بادِل بلوچ ولد ابراھیم عرف ریاست سکنہ ہوشاب کی قیادت میں تمام فدائین کیمپ میں داخل ہوئے۔ ان فدائین میں عزیز زہری عرف بارگ ولد عارف سکنہ خضدار، انیل بلوچ عرف بالاچ ولد عیسیٰ سکنہ دشت تربت، مراد آجو عرف بابا ولد آدم سکنہ بالگتر پنجگور، یاسر نور عرف سیف ولد حاجی نوربخش سکنہ الندور بلیدہ، ابرھیم بلوچ عرف کبیر ولد رسول بخش سکنہ گچک، دیدگ بہار عرف روف ولد گنگزار سکنہ شاپک تربت، بلال بلوچ عرف واحد ولد دلمراد سکنہ کیچ تجابان شامل تھے.

مجید بریگیڈ کے فدائین کیمپ کے سیکورٹی پر معمور تمام اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے بعد رہائشی کوارٹرز تک پہنچنے میں کامیاب رہے اور بیس گھنٹوں تک دشمن سے مقابلہ کرتے رہے۔ اس دوران فدائین دو فوجی افسران سمیت 90 سے زائد اہلکاروں کو ہلاک اور کیمپ کے ایک حصے کو تباہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس دوران درجنوں اہلکار زخمی بھی ہوئے، ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ بعید از قیاس نہیں۔

دریں اثنا 2 فروری شام 8 بجے ہی دوسری طرف مجید بریگیڈ کے فدائی جمال بلوچ عرف چاچا ولد رحمت اللہ سکنہ تربت نے بارود سے بھری گاڑی ایف سی کیمپ پنجگور کے مرکزی دروازے سے ٹکرادی، جس سے کیمپ کا سامنے کا حصہ تباہ اور حفاظت پر معمور تمام فوجی اہلکار موقع پرہی ہلاک ہوگئے۔ جسکے بعد یونٹ کمانڈر حامد رحیم عرف زبیر ولد رحیم بخش سکنہ چتکان پنجگور کی قیادت میں فدائین سمیع سمیر عرف شعیب ولد استاد الٰہی بخش سکنہ پنجگور گرامکان، الیاس بلوچ عرف قادر ولد اسلم سکنہ گرامکان پنجگور، اسد واھگ عرف سبزو ولد صادق سکنہ کیلکور، ناصر امام عرف حمل ولد امام سکنہ پروم، ضمیر بلوچ عرف فراز ولد محمد حسن سکنہ ڈنڈار ہوشاب کیمپ میں داخل ہوئے اور کیمپ میں موجود اکثریت فوجی اہلکاروں کو ہلاک کردیا اور دشمن کے بچے ہوئے اہلکار فدائین کا مقابلہ کرنے کے بجائے کیمپ چھوڑ کر بھاگ گئے۔

پنجگور یونٹ کا ہدف کیمپ کا کنٹرول حاصل کرکے اسے زیادہ سے زیادہ دیر تک اپنے قبضے میں رکھنا تھا۔ دشمن کے فرار ہوجانے کے بعد فدائین نے پورے کیمپ کا کنٹرول حاصل کرلیا۔ جسکے بعد فدائین کے قبضے سے کیمپ چھڑوانے کیلئے دشمن کے ایس ایس جی کمانڈوز، آرمی اور جنگی ہیلی کاپٹر بلائے گئے۔ بلوچ فدائین پر اس دوران جنگی ہیلی کاپٹروں اور بکتر بند گاڑیوں کی مدد سے ایس ایس جی کمانڈوز نے پانچ بڑے حملے کیئے، فدائین نے ہر حملے میں دشمن کو بھاری جانی نقصان دیتے ہوئے پسپا کردیا۔ فدائین 72 گھنٹوں تک دشمن کے ایلیٹ فوجی یونٹوں سے لڑکر کیمپ کا دفاع کرتے رہے۔ زمینی حملوں میں ناکامی کے بعد آج دوپہر فدائین پر جنگی ہیلی کاپٹروں سے بھاری شیلنگ کی گئی، جس سے فدائین طویل مزاحمت کے بعد شہید ہوگئے۔

بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ کو آپریشن گنجل میں براس کے اتحادی جماعتوں کی بھرپور مدد حاصل تھی۔ یہ وسیع اور شدید حملہ ناصرف اس امر کا عکاس ہے کہ بلوچ کس شدت کے حملے کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں بلکہ بلوچ مزاحمت میں اتحاد کی اہمیت اور قوت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

بی ایل اے آئی ایس پی آر کے بیان کو مسترد اور جھوٹ کا پلندہ قرار دیتی ہے۔ پاکستانی فوج اپنی شکست اور لاشوں کو عالمی بدنامی اور اندرونی دباو کے خوف سے چھپا رہی ہے۔

مجید بریگیڈ کے ان 16 فدائین نے خود سے کئی گنا زیادہ طاقتور فوج سے جدید بلوچ تاریخ کی طویل ترین جنگ لڑکر ایک تاریخ رقم کردی ہے۔ بلوچ قوم، تاریخ اور بلوچ لبریشن آرمی ان جانباز فدائین کو ہرگز فراموش نہیں کریگی۔ شہداء کے اس خون سے بلوچ مزاحمت کا ایک نیا سورج طلوع ہوگا، جو بلوچ قومی آزادی کے نوید پر منتج ہوگا۔

Exit mobile version