Site icon News Intervention

بی ایل اے کمانڈر انچیف بشیر زیب کا پیغام بلوچ قوم کے نام

لوچ لبریشن آرمی کے کمانڈر انچیف بشیر زیب بلوچ کا بلوچ قوم کے نام جاری کیا گیا یہ پیغام مادری زبان براہوئی میں ویڈیو کی شکل میں جاری کیا گیا ہے ۔ بعد ازاں ھکل میڈیا نے اس کی ٹرانسکرپٹ جاری کردیا ہے


دنیا کے اقوام کے حوالے سے اگر کوئی تاریخ دیکھے تو تمام اقوام کے سامنے دو راستے آئے ہیں۔ ایک اس قوم نے اپنے اوپر جبر، غلامی اور قبضے کو قبول کیا ہے اور دوسری وہ اقوام جنہوں نے اسے قبول نہیں کیا ہے، سر نہیں جھکایا ہے اور غلامی کے خلاف جدوجہد کی ہے، اپنی آزادی کی خاطر مزاحمت کی ہے۔

آج اگر بلوچ قوم کی تاریخ دیکھیں تو جس دور سے بلوچ غلام بنایا گیا ہے بلوچ نے مزاحمت کی ہے، بلوچ نے جنگ کی ہے، بلوچ نے قومی غلامی قبول نہیں کی ہے، بلوچ نے باہر سے آئے ہوئے یلغار کو، دشمنوں کو قبول نہیں کیا ہے۔ بلوچ نے سر نہیں جھکایا ہے بلکہ سر اٹھا کر اپنی قومی آزادی کے لئے جنگیں لڑی ہے، جدوجہد کی ہے۔

آج یہ اسی جنگ کا تسلسل ہے۔ یہ جنگ کمزور نہیں ہوئی بلکہ یہ مضبوط ہو رہی ہے۔ یہ جنگ شعوری شکل اختیار کر رہی ہے۔

ان بیس سالوں میں ایک وقت ایسا بھی تھا جب جہد کار دور سے دشمن پر چار گولیاں چلاتے، دشمن پر دور سے حملہ کرتے۔ آج بلوچ جہد کار، بلوچ نوجوان دشمن کے کیمپوں کے اندر گھس کر، دشمن کے مورچوں کے اندر گھس کر، اور دشمن کے ٹھکانوں کے اندر گھس کر وہی سے دشمن کو مارتے ہیں اور انہیں گھسیٹ کر نکالتے ہیں۔

یہ بلوچ جہد کا شعور ہے اور یہ بلوچ جہد کی شعوری شکل ہے۔ آج بلوچ ہر شکل میں جاری ہے۔ آج کوئی احتجاج کر رہا ہے، کوئی سڑکوں پر نکل رہا ہے، کوئی آواز اٹھا رہا ہے چاہے اسکی آواز میں کوئی مطالبہ ہے مگر یہ بھی مزاحمت ہے یہ دشمن کے خلاف ایک نفرت ہے۔

ہم اپنے لوگوں سے کہتے ہیں، اپنے قوم سے کہتے ہیں کہ آج نوجوان آپ کے لئے اپنی زندگیاں قربان کر رہے ہیں، اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں، اپنے گھر قربان کر رہے ہیں، آج پہاڑوں میں در پہ در ہیں، جن تکالیف سے گزر رہے ہیں، یہ سب آپ لوگوں کے لئے ہیں۔ آج بلوچ ٹارچر سیلو میں دس دس سال، بیس بیس سال اذیت سہہ رہے ہیں لیکن سر نہیں جھکا رہے دشمن کے ہمکار نہیں بن رہے ہیں، پاکستان کو قبول نہیں کر رہے ہیں، دشمن انکو رہا نہیں کر رہا ہے، انہیں مار رہا ہے تشدد کر رہا ہے انکی لاشیں پھینکتا ہے، یہ سب آج تمہارے لئے ہو رہا ہے۔

کوئی اپنی زندگیوں سے اپنے جانوں سے اپنے بچوں سے بیزار ہو کر یہ نہیں کر رہا بلکہ یہ سب آپ (بلوچ قوم) کے لئے کر رہے ہیں۔ تو اگر کوئی اٹھ کر چالاکی اور مکاری سے، جھوٹ اور فراڈ سے، دھوکے سے، اس جہد کا رنگ تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے، ان سے خیال کریں اور انکو سمجھیں۔ انکو سمجھنا ضروری ہے۔

آج ہمارے وسائل کو نیلام کیا جا رہا ہے، بیچا جا رہا ہے۔ بد بختی تو یہ ہے کہ کوئی اٹھ کر بلوچ کے نمائندگی کے نام پر حصہ مانگتا ہے، فیصد طلب کرتا ہے۔ کوئی کہتا ہے 25 فیصد ہمیں دے دو تو کوئی کہتا ہے 50 فیصد ہمیں دو۔ تاریخ میں جب فاتحین نے کسی علاقے کو فتح کیا ہے، قبضہ کیا ہے لوٹ مار شروع کی ہے، آج یہ اسی کا حصہ ہے بس اسکا رنگ مختلف ہے۔

انہوں (قبضہ گیر) نے کبھی کسی کو اسکا حصہ دیا ہے؟ لوٹ مار کرنے والے، چور جب آتے ہیں کب کسی کو اسکا حصہ دیتے ہیں کہ آج ہم اس (پاکستان) سے یہ توقع کریں؟ یہ قوم کے لئے حصہ نہیں ہے، بلوچستان کے لئے حصہ نہیں ہے، یہ جو بھی حصہ مانگتے ہیں اپنے لئے مانگتے ہیں۔

کوئی کہتا ہے ہم نہیں چھوڑینگے، یہ کرینگے وہ کرینگے، کوئی یہ نہیں کہتا کہ کیسے نہیں چھوڑینگے، کیسے روکینگے کس طریقے سے روکیںگے؟ تو ہم کہتے ہیں اسکا روکنا بغیر مزاحمت بغیر جنگ کے ممکن نہیں۔ اور ہمارے پاس یہی راستہ رہ گیا ہے۔

ہمارا فرض ہے کہ ہم یہ باتیں بولیں، یہ باتیں کہیں کہ انکو سمجھو۔ ان مداریوں کو، ان دکانداروں کو سمجھو۔ کچھ تو ویسے ہی کتے بن گئے ہیں۔ انکی خصلتیں کتوں والی ہیں انکی عادتیں کتوں والی ہیں انکا سب کچھ کتوں جیسا ہے۔ بھونکتے بھی کتوں کی طرح ہیں قومی تحریک کے خلاف، وہ تو ظاہر ہیں، بلکہ ظاہر ہیں وہ پہچانے جاسکتے ہیں کہ وہ دشمن کا حصہ ہیں، وہ ہمارے دشمن ہیں۔

کوئی بلوچ کے نام پر اگر ہمیں گمراہ کر رہا ہے، کوئی بلوچ کے نام پر ہمیں دھوکہ دے رہا ہے، انکو بھی ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے، ہمیں انکو بھی جاننے کی ضرورت ہے۔ آج افسوس، سد افسوس سے کہہ رہے ہیں کہ انکی گورنمنٹ ہوئی ہے، انہی کا دور حکومت ہوا ہے، وہیں وزیر اعلیٰ ہوئے ہیں، وہی سینیٹر ہوئے ہیں، پیپلز پارٹی سے لے کر مسلم لیگ تک، آیا انکے دور حکومت میں کوئی بلوچ لاپتہ نہیں ہوا ہے؟ آیا انکے دور میں کوئی لاش نہیں پھینکی گئی؟ کیا صرف مشرف کے دور میں لاشیں پھینکی گئی؟ مشرف کے دور میں تو لاپتہ افراد کی لاشیں نہیں پھینکی گئیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے دور میں (مسخ شدہ لاشیں پھینکنا شروع) ہوئی۔

آج اگر بلوچ اٹھ کر اپنی فریاد لے کر انکے سامنے جاتے ہیں اور انکے سامنے روتے ہیں، اور یہ لاپتہ افراد کی بات کرتے ہیں؟ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ یہ کٹھ پتلی ہیں، جس دن انکو لات مار کر نکال دیا جاتا ہے یہ آکر تمہارے ہمدرد بن جاتے ہیں۔ ہم بھی انکو اپنا ہمدردی سمجھ لیں؟ اس دور میں اتنی سادگی، اتنی نا سمجھی؟ ان سب چیزوں پر ہمیں سوچنا چاہئے، ہمیں غور کرنا چاہئے۔ دیکھنا چاہیے کہ یہی چیزیں یہی تضاد آج دنیا کے سامنے ہمیں کیا پیش کر رہی ہیں، ہمیں کیا بتا رہی ہیں؟ ہم اپنی بات کیوں سیدھا سیدھا نہیں رکھتے، کیوں نہیں بتاتے؟ اگر آج ہم کوئی مطالبہ کر رہے ہیں تو ہمیں دنیا کو بتا دینا چاہیے۔

پنجابی کو نہیں بتائیں، پنجابی کون ہے کہ ہم اس سے فیصد مانگیں اس سے حصہ مانگیں۔ پنجابی ہے کون، اس سے ہمارا کیا تعلق ہے ہمارا کیا رشتہ ہے؟ بس ایک تعلق کے علاوہ، نا جائز تعلق کے علاوہ، ظالم و مظلوم کا تعلق ہے اور تو کچھ بھی نہیں ہے۔

یہ تو ہمیں سمجھنا چاہیے کہ کیوں ہم اپنی بات الفاظ میں چھپا رہے ہیں؟ اسی وقت ہماری غلامی کی زنجیریں مضبوط ہو رہی ہیں، طاقتور ہو رہی ہیں۔ اسی میں ہمارے بہت سی چیزیں ہمارے ہاتھوں سے نکل رہی ہیں۔ ان چیزوں کو ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے انہی چیزوں کو ہمیں جاننے کی ضرورت ہے، ان چیزوں کے اوپر ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا اصل مرض کیا ہے؟ کیا ہے ہماری اصل تکلیف؟

آج بیروزگاری ہے اسکی وجہ غلامی ہے، ہمارے لوگ بیماریوں کی وجہ سے مر رہے ہیں اسکی وجہ غلامی ہے، آئے دن سڑکوں پر ایکسیڈنٹ سے ہمارے لوگ مرتے ہیں اسکی وجہ غلامی ہے، آج آپس کی لڑائیاں ہو رہی ہیں، چھوٹے سے زمین کے ٹکڑے پر قتل و غارت ہو رہی ہے اسکی وجہ غلامی ہے، آج گھروں میں پانی نہیں ہے اسکی وجہ غلامی ہے۔ جو بھی ہمارے ساتھ ہو رہا ہے یہ قدرت کی طرف سے نہیں ہو رہی یہ ہمارے غلامی کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ قدرت نے تو ہمیں بہت سی چیزیں دی ہے ہم بس اس کے لاحق ہو جائیں۔

یہ سب غلامی کی وجہ سے ہو رہا ہے اسکی وجہ ہی غلامی ہے۔ ہمیں اصلی مرض کو دیکھنا چاہئے۔ تو ایک راستہ ہے ہمارے پاس اسکے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، اگر ہم امن چاہتے ہیں تو ہمیں جنگ لڑنی ہوگی۔ اگر ہم جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں تو اسکے لئے بھی ہمیں ایک شدید جنگ لڑنی ہوگی، اپنے جنگ میں تیزی لانی ہوگی۔

یہ صرف ہم نہیں کہہ رہے یہ تاریخ کہہ رہی ہے۔ تاریخ کو کوئی دیکھے اور دیکھنے کیساتھ جانے اور سمجھے تو وہ اقوام جنہوں نے جنگیں لڑیں وہ زندہ ہوئے اور وہ اقوام جو خاموش ہوگئے، خوف کا شکار ہوئے وہ نہیں بچ سکے وہ بھی مر گئے فنا ہو گئے۔

آج تک ایسا نہیں ہوا کہ جو لوگ بزدل ہو گئے، خوف کا شکار ہوئے، لالچ کا شکار ہوئے وہ زندگی بھر بچے رہیں۔ آج تک ایسا تو نہیں ہوا ہے کہ قبرستانوں میں جتنے بھی لوگ دفن ہیں وہ بہادر تھے اور بزدل سبھی اس دنیا میں زندہ ہیں۔ بزدل بھی مریں ہیں۔

 اس( جنگ) میں فرد مرینگے، کم تعداد میں یا ہزاروں کی تعداد میں مرینگے، لاکھوں کی تعداد میں مرینگے لیکن ہماری قوم بچ جائیگی، زمین بچ جائیگی۔

ہمیں اس چیز کے اوپر سوچنے، غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جب بلوچستان تھا، ہمارا ملک تھا، ہماری سر زمین تھی، جب ہماری ریاست تھی، پاکستان کا نام و نشان بھی نہیں تھا، پاکستان کی کوئی بات نہیں تھی۔ آج ہم کیسے اور کس بنیاد پر کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا اور اسکا رشتہ ہو؟ کس بنیاد پر؟ اگر مسلمانیت کی بات ہے تو جائے سعودی کے ساتھ خود کو ملائے۔ وہ مسلمانوں کا گڑھ ہے۔ اسلام وہی سے تو آیا تھا۔ سعودی کیوں پنجابی کو اپنا بھائی نہیں بناتا۔ پاکستان کو کیوں اپنا بھائی نہیں بناتا، کیوں نہیں کہتا آو ہم اور تم ساتھ مل جاتے ہیں آو میرے ملک، آو جاو اور ایک ہو جاتے ہیں۔ بلوچ کے اوپر یہ مصیبت کیوں مسلط کی گئی ہے۔

آج وہ ہم سے کیوں سوال کرتا ہے، ہمارے اور باتیں بناتا ہے، کیوں ہمیں بتاتا ہے کہ کہاں سے کیا لا رہے ہو، کیسے جنگ لڑ رہے ہو۔ کبھی کہتا ہے افغانستان ان کو مدد دے رہا ہے کبھی کہتا ہے انڈیا انکو مدد دے رہا ہے کبھی کہتا ہے کہ اسرائیل انکو مدد دے رہا ہے۔ ہم واضح انداز میں کہتے ہیں، ہم صاف بات کہتے ہیں، ہم سیدھی زبان میں کہتے ہیں کہ ہمیں آج کوئی بھی کچھ بھی نہیں دے رہا ہے۔ ہم مدد مانگتے ہیں اور جب ہمیں دینگے اس دن ہم بتا بھی دینگے، اعلانیہ طور پر بتائینگے۔

تم کون ہوتے ہو یہ کہنے والے کہ یہ فلاں جگہ پر بیٹھے ہوئے ہیں، وہاں افغانستان میں بیٹھے ہوئے ہیں، یہ انڈیا میں بیٹھے ہوئے ہیں یہ اسرائیل میں بیٹھے ہوئے ہیں، یہ امریکہ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ بلوچ جہاں بھی رہے تم کون ہوتے ہو، تمہیں کس نے حق دیا ہے؟ ہم جہاں بھی جائیں، بیٹھیں چھپانے والی بات نہیں ہے کہ ہمارا اور تمہارا کوئی رشتہ ہی نہیں ہے۔ تمہارے رشتے کو ہم نے مانا ہی نہیں ہے، تمہاری حاکمیت ہم نے مانی ہی نہیں ہے۔ آج ہم جہاں بھی بیٹھے، چاہے جا کر افغانستان میں بیٹھیں، ہمارا اور انکا بہت پرانا رشتہ ہے، جہاں بھی جا کر بیٹھیں، دنیا کے کسی بھی کونے میں جا کر بیٹھیں، پنجابی کون ہے اور پاکستان کون ہے، کس بنیاد پر ہمیں یہ سب کہتا ہے۔

ہم نے اسے قبول ہی نہیں کیا ہے۔ یہ تاریخ بتا رہا ہے تاریخ ثابت کرتی ہے دنیا ثابت کرتی ہے کہ بلوچ و بلوچ قوم نہیں مانتی اسے، پاکستان کو قبول نہیں کرتی، اسکی حاکمیت نہیں مانتی۔ یہ بزور طاقت آئی ہے اور اگر آج ہمارے پاس اتنی طاقت نہیں تو کل ضرور ہوگی، کل ہم بھی ضرور ایک طاقت ہونگے۔

نظریہ کے لحاظ سے فکر کے لحاظ سے حوصلے کے لحاظ سے بلوچ نوجوانوں میں کوئی کمی نہیں ہے اگر ہے تو وہ بے وسائلی ہے۔ آج بلوچ بے وسائلی کے باوجود یہاں تک پہنچا ہے اس جگہ پر (جہد کو) پہنچایا ہے جس دن بلوچ کے ہاتھوں میں طاقت آئی یہ ( پاکستان) خود کو سنبھال نہیں پائیگا۔ یہ اپنے پاوں نہیں سنبھال پائیگا، آج بلوچ نے اس جگہ اسے لا کھڑا کیا ہے۔

آج اگر کوئی آٹھ کر یہ کہتا ہے کہ یہ لوگ (سرمچار) مال اور مڈی کے لئے، آسودگی کے لئے اور پیسے کے لئے یہ سب کر رہے ہیں تو ہم صرف اتنا کہتے ہیں، اپنے ان بلوچوں سے کہتے ہیں، پنجابی اور پنجابی کے دلالوں کے پروپیگنڈوں کا ہم جواب نہیں دیتے بلکہ اپنے ان بلوچوں سے کہتے ہیں کہ آیا کیا آپ لوگ پیسے کے لئے، پیسے کی خاطر اپنے گھروں کو ایک مہینے کے لئے چھوڑ سکتے ہیں؟ اگر فکر نہ ہو نظریہ نہ ہو ان پہاڑوں میں آکر رہ سکتے ہیں ان پہاڑوں میں دوڑ دھوپ کر سکتے ہیں؟ تو پھر کون پاگل ہے کون ناداں ہے جو اپنے جان کی بازی لگائے ور اپنے جان کا شرط لگائے اور اٹھ کھڑا ہو اور کہے یہ مجھے تھوڑے سے پیسے ملینگے؟ کوئی اتنا پاگل اتنا ناداں نہیں ہے۔

آیا اگر آج کوئی کھڑا ہو کر یہ بولے کہ یہ جذباتی ہیں یہ نہیں سمجھتے تو اس عمر میں کوئی ایسا نہیں ہے کہ جذباتی ہو جائے۔ یہ جذبات نہیں یہ حقائق ہیں، یہ سب حقائق ہیں، یہ سب ہم جانتے ہیں، سب سمجھتے ہیں۔ درد آئے تکلیف آئے، اپنے لوگوں کی حالت دیکھ رہے ہیں، اپنے قوم کی حالت دیکھ رہے ہیں کہ دو وقت کی روٹی کے لئے پریشان ہیں کہ کل کا اپنا کھانا کیسے لاونگا اور وسائل بھی دیکھ رہے ہیں اپنے۔ کتنا وسائل لیکر جا رہے ہیں یہ (پاکستان ) بے دردی کے ساتھ لیکر جا رہی ہیں انکو بھی دیکھ رہے ہیں ہم۔

لاٹھیاں بھی پڑ رہی ہے ( بلوچ قوم کو)، بے عزت بھی کر رہے ہیں، نہ ننگ کا لحاظ کرتے ہیں نہ ناموس کا لحاظ کر تے ہیں، نا عورتوں کا خیال کرتے ہیں، بچوں کو بھی مارتے ہیں، ہمارے بہن، بچیوں کو رلانے ہیں، زار و قطار ہے انکی سڑکوں پر، کیا ہم ان آنسوؤں کو بھول سکتے ہیں؟ کس بنیاد پر بھول سکتے ہیں؟ ہاں اگر ضمیر مر جائے تو بھول جائینگے، دیکھینگے، دیکھتے رہینگے، اور آگے بھی دیکھتے ہی رینگے اور یہ (پاکستان) ہمیں آگے بھی دکھاتا رہیگا۔

آج بلوچستان یونیورسٹی میں جو سکینڈل ہوتا ہے، یہ اپنی راہ ہموار کر رہا ہے۔ ان دنوں کے لئے راہ ہموار کر رہا ہے جو بنگال میں کیا گیا تھا۔ آج یہ ہمیں دیکھ رہا ہے، جو بھی کر رہا ہے ہمیں دیکھ رہا ہے کہ کل یہ چیزیں ہمارے ساتھ کرے۔ لاکھوں کی تعداد میں زیادتیاں ہوئیں۔ آج یہ یہی سوچ رہا ہے، ہمارے مزاحمت کو دیکھ رہا ہے۔ تو کیا ہم پہلے سے ہی تیاری نہ کر لیں؟ کیا ان سب سے پہلے ہم اس جنگ میں شامل نہ ہو جائیں؟ یا پھر نہیں، تماشائی بنے رہیں اور دیکھتے رہیں اور غور کریں کہ کس کی بہن چلی گئی، کس کی ماں آج چلی گئی، کل کس کی باری ہے۔ ہم کم سے کم یہ نہیں کر سکتے ہیں۔

ہم نہیں کرتے اور ہم سے یہ کام نہیں ہوتا، اس سے پہلے یا تو دشمن رہیگا یا ہم۔ اس دن کے آنے سے پہلے ہم آپ سب سے یہی توقع رکھتے ہیں اور یہ امید کرتے ہیں۔ اور وہ دن ضرور آئیگا، اس دن کے آنے سے پہلے آئیں ایک ہو جائیں اور مل کر اپنی لڑائی آگے لیکر جائیں۔

ہم جنگ میں شامل ہوں پھر چاہے وہ جو کرے وہ دشمن ہے وہ کرسکتا ہے۔ اس سے خیر کی اچھائی کی امید نہ پہلے تھی نہ اب ہے۔ تو پھر ہم مل جائیں اور ایک ساتھ مقابلہ کریں۔ جو بھی اسکے ایجنٹ ہوئے ہیں، اسکے کتے بنے ہوئے ہیں، بھونک رہے ہیں، بلوچ کے اوپر تحریک کے اوپر، جہدکاروں کے اوپر، شہیدوں کے اوپر، انکو ہم بس اتنا کہتے ہیں کہ تمہاری اوقات کیا ہے؟ تمہاری حیثیت کیا ہے، پنجابی کے سامنے؟ بلوچ کے سامنے تو ویسے بھی ( تمہارے اوقات اور حیثیت ) کچھ بھی نہیں ہے، پنجابی کے سامنے کیا حیثیت ہے تمہاری؟ یہ جس کو اپنا محسن کہتے ہیں ڈاکٹر قدیر خان کو اسکی کیا حیثیت بنا ڈالی اسکی کیا اوقات بنا ڈالی، سڑکووں پر روتا تھا، تو پھر تم جیسے دلالوں کی کیا حیثیت ہوگی اسکے سامنے۔ تمہیں تو وہ اچھے سے پہچانتا ہے کہ تم اپنے قوم کے نہیں ہوئے اسکے کیا ہونگے۔ تم اپنے ہمسایہ کے نہیں ہوئے، اپنے گھر کے نہیں ہوئے۔ وہ تمہیں اچھے سے پہچانتا ہے اسکے سامنے تمہاری کیا اوقات ہے؟ تمہاری حیثیت اسکے سامنے کیا ہے؟

اسکو خود جانو خود پہچانو، اسکو لوگ سمجھیں کہ اس راستے پر چلنا ہے۔ آج یہ سمجھ آتی ہے، ہماری لڑائی پہچان میں آتی ہے۔ فرق ہے اس میں، فرق ہے اس میں کہ ہمارا کوئی بلوچ مارا جاتا ہے، شہید ہوتا ہے، اپنی جان قربان کرتا ہے ہم سینہ تان کر اعلانیہ کہتے ہیں کہ ہمارے اتنے ساتھی شہید ہوئے ہیں، فلاں ساتھی شہید ہوا ہے۔ اسکی ماں کھڑی ہوتی ہے باپ کھڑا ہوتا ہے، فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہمارا بیٹا اس راہ میں شہید ہوا ہے۔ کیوں کسی مخبر کے گھر والے نہیں کہتے؟ کیوں اسکا خاندان نہیں کہتا؟ کیوں بات نہیں کرتے؟ وہ تو چھپاتے ہیں۔ کیوں وہ (پاکستان) اپنے فوجیوں کا نہیں بتاتا؟ وہ تو چھپاتے ہیں۔ اگر حق کی لڑائی لڑ رہے ہیں تو بتائیں۔ ناجائز اور جھوٹ کی جنگ ہے انکو حقیقت معلوم ہے کہ انکا حوصلہ ٹوٹ جائیگا، بے حوصلہ ہو جائینگے۔ جتنے بھی مارے جاتے ہیں وہ (پاکستان فوج) چھپاتا ہے کہ دوسرے (اہلکار) بے حوصلہ نہ ہو جائیں میڈیا کے ذریعے۔ ہم تو بتاتے ہیں اور اس لئے بتاتے ہیں کیونکہ ہماری جنگ حق کے لئے جنگ ہے، جائز جنگ ہے۔ ہمارے چھ ساتھی مارے جائیں، آٹھ مارے جائیں دس مارے جائیں ہم بتاتے ہیں ہم فخر کرتے ہیں انکے اوپر لیکن وہ اپنے (مارے جانے،والے) لوگ چھپاتا ہے۔ ہمارے ساتھیوں کی بہنیں، مائیں، باپ ان پر فخر کرتے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے، مطلب وہ مانتے ہیں کہ انکا بیٹا اس جہد میں شامل رہا ہے۔

کسی مخبر کے گھر والے نہیں بولتے کیونکہ انہیں پتہ ہے غلط کام ہے۔ اس فرق کو ہم سمجھیں، ہم جان جائیں کہ، اسکا جاننا ضروری ہے۔ یہ سب چیزیں، آج ہم کوئی بات کہتے ہیں، ہم آپکو بتا رہے ہیں کہ ہم ان چیزوں سے گزر چکے ہیں اور گزر رہے ہیں اور گزرینگے۔

پہلے کوئی کہتا تھا کہ یہ جذباتی ہیں، انکا شوق ہے، دھوکہ کھا گئے ہیں، گمراہ ہوئے ہیں، آج تو کوئی یہ نہیں کہیں۔ ان سب چیزوں سے ہم گزر چکے ہیں اس سے سخت حالات ہم پر آئینگی، آگے بھی آئینگی، لیکن ہم کہتے ہیں کہ ہم ان سب کے لئے تیار ہیں۔ ہم کہتے ہیں ہماری سر زمین،  ہماری قوم نہ ہارے، ہماری شناخت کا خاتمہ نہ ہو، اور سب بندھے ہوئے ہیں اس جنگ سے۔ تو جنگ کو منظم بنائیں، مضبوط جنگ لڑیں اس دشمن کے خلاف، کمزور جنگ نہ لڑیں۔ مضبوط جنگ لڑیں اور اسکے لئے خود کو تیار کریں۔ اسکے لئے خود کو ذہنی حوالے سے، جسمانی حوالے سے، ہر حوالے سے، قربانی کے حوالے سے، خون پسینے کے حوالے سے خود کو تیار کریں تب ہم اپنی قوم کو بچاسکتے ہیں۔ اس سر زمین کو، اس دھرتی کو، اس زبان کو، اس ثقافت کو، سب کو بچا سکتے ہیں ورنہ یہ سب ہمارے ہاتھ سے چلا جائیگا۔ انکو ہم تیز تقاریر سے نہیں کر سکتے ہیں۔ اس یلغار کو روکنے کے لئے ہم کہتے ہیں کہ شعوری جنگ نوجوان لڑ رہے ہیں، نوجوانوں کا ساتھ دیں انکا حوصلہ بنیں، انکے مددگار بنیں انکی حمایت کریں، چار قدم انکے ساتھ چلیں، یہ دشمن خود کو نہیں سنبھال پائیگا

Exit mobile version