گذشتہ شب مقبوضہ بلوچستان کے راجدانی کوئٹہ جاتے ہوئے راستے سے دلیپ بلوچ کو پاکستانی فورسز نے گرفتاری کے بعد لاپتہ کیا گیا۔
دلیپ بلوچ کے بھائی نے کہا کہ وہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور پنجاب میں انگلش لٹریچر میں ماسٹر کے طالب علم ہیں اور چھٹیوں کی غرض سے کوئٹہ آرہے تھے کہ راستے میں بیواٹا چیک پوسٹ رکنی ضلع بارکھان سے انھیں ماورائے عدالت جبری طور پر لاپتہ کیا گیا-انہوں کہا کہ میں تمام انسانی حقوق کے اداروں اور تمام انسان دوستوں سے اپیل کرتا ہوں کہ میرے بھائی کی باحفاظت بازیابی کیلیے آواز اٹھائیں –
خیال رہے کہ رواں سال کے فرروی کے مہینے میں بلوچستان سے سینکڑوں طلباء کی جبری گمشدگیوں رپورٹ سامنا آیا ہے، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور بلوچ جماعتیں ان جبری گمشدگیوں کا الزام پاکستانی خفیہ اداروں پر عائد کرتی ہیں –
دوسری جانب مقبوضہ بلوچستان کے علاقے بارکھان سے جبری گمشدگی کے شکار ہونے والے سماجی کارکنان کی جبری گمشدگیوں کے خلاف شہر بھر میں شٹرڈاوں ہڑتال کی گئی۔بلوچستان کے علاقے بارکھان سے رواں ہفتے تین سماجی کارکنوں کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا جو تاحال لاپتہ ہیں جن میں بارکھان نوجوان اتحاد کے سربراہ شاہ زین بلوچ، نسیم بلوچ اور ڈاکٹر جمیل بلوچ شامل تھے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ احتجاج تینوں نوجوانوں کی بازیابی کے لئے کررہے ہیں جنہیں حکومتی اداروں نے حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کیا ہے۔ان میں سے شاہ زین کھیتران اور اسکے دوست نسیم بلوچ کو گذشت شب رات گئے لاپتہ کردیا گیا جبکہ ڈاکٹر جمیل کو اس سے ایک روز قبل لاپتہ کیا گیا۔علاقائی ذرائع کے مطابق ان نوجوانوں کو نان لوکل ڈومیسائل کے مسئلے پر آواز اٹھانے کی پاداش میں بااثر افراد کے کہنے پر جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے تاہم حکام نے تاحال اس حوالے سے کوئی موقف پیش نہیں کیا ہے۔