تنویر احمد اپنے لوگوں کو جگانے کے لئے برطانیہ کی بہترین زندگی کو لات مار کے آیا ہےاورعرصہ 14/15 سال سے مسلسل فلیڈ میں موجود ہے۔۔۔۔۔ کمیٹمنٹ کا اس جیسا پکا انسان شائد ہی کوئی دوسراہو۔ جب اس نے فیصلہ کیا کہ وطن کی آزادی تک نہ تو پاکستان یا ہندوستان جاونگا اور نہ ہی پاکستان, بھارت اور چین کا ائرپورٹ استمال کرکے لندن جاونگا تب سے آج تک دس سال بیت گئے منگلہ , پتن اور کوہالہ کراس نہیں کیا
تنویر احمد کی نہ تو یہ پہلی گرفتاری ہے نہ آخری۔۔۔ تنویر مظفر آباد, میرپور راولاکوٹ, ڈڈیال ,کوٹلی اور ہر سٹیشن سے گرفتار ہوا۔ اپنی ساری لڑائی اپنی ایما پرلڑتا ہے
میرا ان سے 2009 یعنی 13سالہ تعلق ہے۔۔۔۔۔ اس طویل عرصے میں مجھے ان کو سننے سمجھنے کا بڑا موقع ملا۔ تنویر کبھی عوامی سروے میں مگن ہوتا ہے, کبھی شاردہ کو کھلوانے کی جستجو کرتا ہے, کبھی بیروکریسی کے سربراہ چیف سیکرٹری سے سوالات کرتا ہے, کبھی مظفر آبادکے جعکی حکمرانوں کو جھنجوڈتا ہے, کبھی چھاونی میں داخل ہوکے ان کی موجودگی پرسوال کرتا ہے, کبھی پبلک پالسیز کی ورکشاپس رکھتا ہے, کبھی انٹرویوز میں مگن رہتا ہے۔۔۔۔
ان 13 سالوں میں مجھے ان کے ساتھ رہنے سفر کرنے کے بھی مواقعے ملے۔ ہم دونوں 2010 میں کئی ممالک کے سفارتکاروں سے بھی ملے۔
تنویر نامی ایک ہی شخص کے اندر ایک پوری انجمن ہے۔۔ تنویر بیک وقت, آزاری پسند, عالمی صحافی, ریسرچر, سکالر, سفارتکار , پیس ایکٹوسٹ, سوش میڈیا ایکٹویسٹ اورمزاہمتکار بھی ہے۔
ڈر خوف اور لالچ سے مبرا ہےیہ شخص۔۔۔۔ بھوکا رہتا ہےننگےپیر چلتاہے۔
تنویر احمد نےپاکستان کے زیر کنٹرول جموں کشمیر کی روایتی جدوجہد کو ایک نیا رنگ دیا۔ ان کی جدوجہد کا الگ ہی انداز ہے۔۔۔۔۔
تنویر کو گرفتار کرنے والوں ایسی کوئی جیل بنی ہی نہیں جو تنویر احمد کے اعصاب کو توڈ سکے۔۔۔۔۔۔
میں نے اپنی 25سالہ سیاسی زندگی میں تنویر احمد جیسے مضبوط ترین عصاب کے مالک دوسرے شخص کو نہیں دیکھا۔۔۔۔
مجھے تنویر احمد سے دوستی پر فخر ہے