افغانستان کے دارالحکومت کابل میں درجن بھر خواتین نے طالبان کی جانب سے خواتین کو مکمل طور پر اپنا جسم اور چہرہ ڈھانپنے کا حکم جاری کرنے کے خلاف احتجاج کیا۔خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق کابل کے وسطی کے علاقے میں درجن بھر خواتین نے‘انصاف، انصاف’کے نعرے لگائے اور احتجاج کیا، جن میں سے اکثر نے نقاب نہیں کیا ہوا تھا۔
قبل ازیں افغانستان کے سپریم لیڈر اور طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخونزادہ نے گزشتہ ہفتے کے آخر میں حکم جاری کیا تھا کہ خواتین روایتی برقعے سے مکمل طور پر خود کو ڈھانپ لیں۔طالبان کی جانب سے گزشتہ برس اگست میں حکومت میں واپس آنے کے بعد شروع کی جانے والی پابندیوں میں سے ایک ہے۔
مظاہرین نے نعرے لگائے کہ‘برقع ہمارا حجاب نہیں ہے’، یہ ان کا ہیڈ اسکارف کے مقابلے میں مکمل چھپانے والے برقعے پر اپنے اعتراض کی طرف اشارہ تھا۔رپورٹ کے مطابق مختصر احتجاج کے بعد مارچ کو طالبان کیشدت پسند وں کی جانب سے ختم کرادیا گیا، جنہوں نے واقعے کی رپورٹنگ سے صحافیوں کو بھی روک دیا تھا۔
ہیبت اللہ اخونزادہ کے حکم میں خواتین کو ضروری کام کے علاوہ گھروں میں رہنے کا بھی ذکر تھا، جس پر بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی تھی۔
مظاہرے میں شریک خاتون سائرہ سما عالمیار کا کہنا تھا کہ‘ہم انسانوں کی طرح رہنا چاہتے ہیں جانوروں کی طرح گھر کے ایک کونے میں قید ہو کر نہیں ’۔طالبان لیڈر نے حکم نامے میں نئے ڈریس کوڈ پر عمل نہیں کرنے والی خواتین سرکاری ملازمین کو برطرف اور جن مردوں کی بیویاں اور بیٹیاں اس حکم پر عمل کرنے میں ناکام ہوں تو انہیں معطل کرنے کا کہا تھا۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت کے ان دو ادوار کے درمیان 20 برسوں میں خواتین نے تعلیم اور کام کرنے کی طرف پیش رفت کی لیکن روایتی طور طریقے تاحال جاری ہیں۔ملک کے کئی علاقوں میں ان 20 برسوں کے دوران بھی روایتی برقع پہنتی رہی ہیں۔