بلوچ نیشنل موومنٹ کے انفارمیشن سیکریٹری قاضی داد محمد ریحان نے سانحہ زیارت کے پس منظر میں کیے گئے پریس کانفرنس میں آئی ایم ایف کے منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا سے اپیل کی ہے کہ چونکہ پاکستان بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف وزری کر رہا ہے اس لیے آئی ایم ایف سمیت دیگر مالیاتی ادارے اس کی مدد نہ کریں۔
انھوں نے بدھ کے روز ایک آنلائن پریس کانفرنس میں کہا پاکستان کو جب بھی عالمی براداری کی طرف سے مالی مدد ملی اس کی فوج نے اس امداد کو بلوچ عوام کے خلاف استعمال کیا۔آج آئی ایم ایف سمیت دیگر مالیاتی اداروں اور ممالک کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ان کی طرف سے امداد حاصل کرنے والا ملک انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث نہیں۔کیا پاکستان کے یہ جرائم کافی نہیں ہیں کہ ان کی بنیاد پر بین الاقوامی برداری اس کے خلاف مالیاتی پابندیاں عائد کرے تاکہ اسے اپنے کیے کی سزا مل سکے؟
انھوں نے کہا انسانی حقوق کے عالمی ادارے بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ بلوچستان میں جبری گمشدگی ایک ایسی سچائی ہے کہ جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔پاکستان میں انتظامی، سیکورٹی اداروں اور عدلیہ کے سربراہان اس بات کا مختلف فورم پر اظہار کرچکے ہیں کہ بلوچ قومی سیاسی کارکنان کو اس لیے جبری لاپتہ کیا جا رہا ہے کہ وہ بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد سے منسلک ہیں۔بلوچستان میں پاکستان کے طفیلی سیاستدان بھی بارہا کہہ چکے ہیں کہ جبری لاپتہ افراد کے مسئلے کا بلوچستان کی تحریک سے آزادی سے تعلق ہے۔پاکستانی فوج نے اپنی ریاست کی نام نہاد سول حکومت اور عدلیہ کو یہ باور کرایا ہے کہ ’پاکستان کے بقا‘ کے لیے یہ لازم ہے کہ بلوچ قومی سیاسی کارکنان کو جبری لاپتہ کیا جائے کیونکہ پاکستانی فوج ان پر لگائے گئے الزامات کو عدالت میں ثابت کرنے کے اہل نہیں۔ اس لیے درپردہ پاکستان کی حکومت اور عدلیہ نے پاکستانی فوج کو جبری گمشدگیوں کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صرف عالمی ادارے ہی پاکستان کے ان جرائم کو روک سکتے ہیں۔
قاضی ریحان نے کہا کہ ہم تمام عالمی مالیاتی اداروں، اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک اور بالخصوص آئی ایم ایف کے منیجنگ ڈائریکٹر محترمہ کرسٹالینا جارجیوا سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کی مالی مدد سے گریز کریں اور اس پر دباؤ ڈالیں کہ وہ بلوچستان میں جبری گمشدہ افراد کو منظرعام پر لاکر جبری گمشدگیوں کے سلسلے کو فوری ختم کرئے۔
یہ پریس کانفرنس گذشتہ روز پاکستانی فوج کے ہاتھوں زیرحراست قتل کیے گئے 9 بلوچ جبری لاپتہ افراد کے قتل کے پس منظر میں کیا گیا۔
پریس کانفرنس میں بی این ایم کے نفارمیشن سیکریٹری کا کہنا تھا گذشتہ روز ہم نے جبری لاپتہ افراد کے ماورائے قانون و عدالت ’حراستی قتل‘ کا بدترین مشاہدہ کیا۔پاکستانی فوج نے ایک ایسی حرکت کی ہے جس کی اس کی تاریخ میں شاید مثال موجود ہو لیکن جدید ریاستوں میں اس طرح کی مثال ملنی مشکل ہے۔ایک پیشہ ور ریاستی فوج سے جس کا پاکستانی فوج ہمیشہ دعوی کرتی ہے دنیا کو یہی توقع ہے کہ وہ اپنی ریاستی قوانین کے دائرے میں اپنے فرائض انجام دے گی۔ کسی بھی فورس سے یہی امید کی جاتی ہے کہ وہ قانون کی رکھوالی کرئے گی لیکن پاکستانی فوج سے کسی مثبت چیز کی توقع رکھنا اپنے آپ کو دھوکا دینا ہے۔بلوچ لبریشن آرمی نے 14 جولائی کو پاکستانی فوج کے لیفٹیننٹ کرنل لائق بیگ مرزا کو گرفتار کرکے ہلاک کیا۔ اس کے ردعمل میں پاکستانی فوج نے اپنے ٹارچرسیلز میں موجود 9 جبری لاپتہ افراد کو فیک انکاؤنٹر کے ذریعے ماورائے قانون و عدالت قتل کرکے یہ دعوی کیا کہ یہ افراد زیارت کے مقام پر کرنل لائق بیگ کے اغواء اور اسے مارنے میں ملوث تھے۔
قاضی ریحان کے مطابق ان افراد میں سے اب تک چھ افراد کی شناخت ہوچکی ہے، شاہ بخش مری، شھزاد ولد خدابخش دھوار کو پاکستانی فوج نے 4 جون 2022 کو شال سے جبری لاپتہ کیا تھا، سالم ولد کریم سکنہ ضلع پنجگور ایک طالب علم تھے، جنھیں 18 اپریل 2022 کو اس وقت گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کیا گیا تھا جب وہ شال جا رہے تھے۔ فزیو تھراپسٹ ڈاکٹرمختیاربلوچ کو شال سے 11 جون 2022 کو پاکستانی فوج نے حراست میں لے کر جبری لاپتہ کیا تھا، انجینئر اور ٹیچر زھیربلوچ ولد محمداکبر کو 7 اکتوبر 2021 کو پاکستانی فوج نے جبری لاپتہ کیا تھا جبکہ شمس ساتکزھی گذشتہ پانچ سال سے جبری لاپتہ تھے انھیں 2017 کو پاکستانی فوج نے حراست میں لے رکھا تھا۔
انھوں نے کہا ہمارے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ یہ تمام افراد جبری لاپتہ تھے اور ’پاکستانی فوج‘ کے زیرحراست تھے۔ پاکستانی فوج نے زیارت واقعے سے منسلک کرکے ان کو اس لیے ’شہید‘ کیا گیا تاکہ ایک طرف وہ اپنی فوجیوں کے مورال کو بلند کرسکے کہ فوج اگرچہ ان کی حفاظت کی صلاحیت نہیں رکھتی مگر ان کا فوری بدلہ لینے کی اہلیت رکھتی ہے اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ پاکستانی ریاست کے اس بیانیہ کو کہ جبری لاپتہ افراد ’پاکستانی فوج کی حراست‘ میں نہیں بلکہ پہاڑوں میں ہے، جعلی ثبوت فراہم کیا جاسکے۔