مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیراعظم تنویر الیاس نے بجلی کی قیمتیں گزشتہ ماہ منجمد کرنے کا اعلان کیا تھا، چیف سیکرٹری نے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کا اطلاق اس خطہ میں نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔گزشتہ ماہ 100 یونٹ کا بل ٹیکسز ملا کر فی یونٹ 9 روپے 60 پیسے تک کا جاری کیا گیا، رواں ماہ 100 یونٹ کا بل ٹیکسز ملا کر فی یونٹ 20 روپے سے زائد تک کا جاری کیا گیا ہے۔ اس میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ بھی شامل ہے۔ اسی طرح 300 یونٹ کا کمرشل بل گزشتہ ماہ 28 روپے فی یونٹ تک جاری ہوا تھا، جو اس ماہ 43 روپے فی یونٹ کے حساب سے جاری کیا گیا۔ بلات سے کم از کم 800 روپے فی کس فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں وصول کئے جائیں گے، جبکہ تین سو یونٹ تک کے کمرشل بلات پر فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ 4000 کے لگ بھگ وصول کی جائیگی۔
اس کے علاوہ ہر بل پر 17 فیصد جی ایس ٹی، کمرشل بلات پر 300 یونٹ استعمال کرنے والوں کو 1700 روپے انکم ٹیکس، (این جے، ایف سی ایس، ڈی ایم سی، کیو ٹی ا?ر)سرچارجز (جن میں ‘این جے’ نیلم جہلم سرچارج کی نمائندگی کر رہا ہے، دیگر سرچارجز کے حوالے سے کوئی وضاحت نہیں ہے۔) یہ سرچارجز 100 یونٹ کے بل میں 205 روپے، جبکہ 300 یونٹ کے بل میں 1500 سے زائد لگائے گئے ہیں۔ یوں ایک طرف وزیراعظم اور چیف سیکرٹری سمیت وزیراعظم کے جعلی ترجمانوں کے تمام تر دعوے جھوٹے ثابت ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف پاکستانی زیر انتظام مقبوضہ جموں کشمیر کی حکومت نیپرا سے 2روپے59 پیسے فی یونٹ کے حساب سے بجلی خریدتی ہے، سالانہ 300 سے زائد میگاواٹ بجلی کی خرید پر حکومت نیپرا کو 5 ارب روپے کی رقم ادا کرتی ہے۔ البتہ نیپرا کے ٹیرف کے مطابق بلات صارفین سے وصول کرتے ہوئے 25 ارب روپے کی رقم صارفین سے بلات کی مد میں وصول کی جاتی ہے اور ٹیکسوں کی مد میں 4 ارب روپے وصول کئے جاتے ہیں۔ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی رقم بھی وفاقی حکومت یا نیپرا کو ادائیگی نہیں کرنا پڑتی، بلکہ وہ اضافی کمائی ہوتی ہے، اس طرح فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ لگنے کی وجہ سے مقامی حکومت کو اضافی ٹیکس بھی جمع ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ واپڈا مقامی حکومت کو واٹر یوز چارجز کی مد میں 700 ملین روپے سالانہ الگ سے ادا کرتا ہے، جو ابھی صرف منگلا ڈیم کے واٹر یوز چارجز ہیں۔ دیگر ڈیموں کے معاہدے ہونے کے بعد مقامی حکومت کو واٹر یوز چارجز کی مد میں مزید رقم بھی موصول ہوگی۔ اس طرح اس خطے سے پیدا ہونے والی بجلی سستے داموں نیپرا سے خریدنے کے بعد شہریوں کو انتہائی مہنگے داموں یعنی پاکستان میں نافذ العمل ٹیرف کے مطابق بیچ کر 25 ارب روپے سے زائد کی رقم اکٹھی کی جاتی ہے۔
پاکستان میں فرنس آئل، ایل این جی، کوئلے اور دیگر ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی کی وجہ سے حکومت کو بجلی فی یونٹ 18 سے 20 روپے فی یونٹ تک پڑتی ہے، جسے مختلف سلیبیں بنا کر صارفین کیلئے ٹیرف ترتیب دیتے ہوئے ترسیل کیا جاتا ہے۔ تاہم پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں حکومت 2 روپے 59 پیسے فی یونٹ بجلی خرید کر حکومت پاکستان یا نیپرا کے ٹیرف کے مطابق شہریوں کو ترسیل کر کے کئی گنا منافع کما رہی ہے۔ دوسری جانب شہریوں کی جیبوں پر اتنا بڑا ڈاکہ مارنے کے بعد انہیں سے جھوٹ بولا جاتا ہے، انہیں دھوکہ دیا جاتا ہے اور انہیں اندھیرے میں رکھ کر حکمران اشرافیہ اپنی عیاشیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ نیپرا کے ٹیرف کے اطلاق کی شرط فی الفور ختم کرتے ہوئے گھریلو صارفین کیلئے بجلی کے نرخ 5 سے 6 روپے فی یونٹ مقرر کئے جائیں، ہر طرح کے ٹیکسوں کا خاتمہ کیا جائے اور کمرشل صارفین کیلئے 8 سے 10 روپے فی یونٹ بجلی کے نرخ مقرر کرتے ہوئے شہریوں کو سہولیات فراہم کی جائیں اور لوڈشیڈنگ سے مکمل استثنیٰ دیا جائے۔ شہریوں کو ان مطالبات پر تحریک منظم کرنا ہوگی، تبھی یہ مطالبات منظور کئے جا سکتے ہیں۔