لاپتہ افراد کے لواحقین نے کہا ہے کہ پرامن جہدوجہد سے ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کو فرق نہیں پڑتا پیاروں کی بازیابی کے لئے حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے دھرنے پر بیٹھے لواحقین احتجاج کرینگے-
مظاہرین نے بلوچستان بھر میں احتجاج کی کال دے دی ہے-
مظاہرین میں لاپتہ ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی سمی دین، لاپتہ شبیر بلوچ کی ہمشیرہ سیماء بلوچ، خضدار سے تعلق رکھنے والے سائرہ بلوچ، لاپتہ راشد حسین کی والدہ، لاپتہ سعید احمد کی والدہ، بلوچ کارکن بیبو بلوچ سمیت دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں درخواست کی ہے کہ کوئٹہ میں موجود لاپتہ افراد کے لواحقین سمیت انسانی حقوق کے کارکنان کل دھرنے میں شامل ہوکر احتجاج میں شرکت کریں-
لاپتہ افراد کے لواحقین نے کہا کہ گذشہ سات روز شدید بارشوں کے باعث گورنر ہاؤس کے سامنے انصاف کے لئے دھرنا دئے بیٹھے ہیں ایک ہفتے تک ہمیں سننے والا کوئی نہیں تھا کہ ہمارے تین مطالبات ہیں ہمارے مطالبات پر عمل درآمد نہیں کیا جارہا-
ویڈیو پیغام میں سمی دین محمد بلوچ نے کہا حکومت کو تین مطالبات پیش کئے جن میں مزید زیارت جیسے واقعات کی روک تھام اور لاپتہ افراد کی بازیابی اور زیارت واقعہ پر جوڈیشنل انکوائری کمیٹی بنانے کے مطالبات شامل تھیں تاہم حکومت اور ریاست گذشتہ تیرہ سالوں سے غیر سنجیدہ رویہ اپنائی ہوئی ہے-
سمی دین بلوچ کا کہنا تھا کہ ریاست کی اس ہٹ دھرمی کے خلاف آئے روز ہم احتجاج پر مجبور ہیں تاہم اب مزید سخت احتجاج کا سلسلہ شروع کیا جائے گا-
ویڈیو پیغام میں گفتگو کرتے ہوئے لاپتہ بلوچ طلباء رہنماء شبیر بلوچ کے ہمشیرہ سیماء بلوچ کا کہنا تھا کہ اگر ہمارے احتجاج کے دؤران ہمیں کچھ ہوجاتا ہے تو اسکی ذمہ دار پارلمینٹ میں بیٹھے کھٹپتلی وزراء اور نام نہاد قوم پرست پارٹیاں ہونگے-
لاپتہ افراد کے لواحقین نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ہم بلوچ قوم سے درخواست کرتے ہیں ہے وہ کل سے احتجاجی تحریک شروع کریں اور تمام علاقوں میں احتجاج کی جائیں-
مظاہرین نے مزید کہا ہے کہ ہمارے مطالبات پر جب تک حکومت اور متعلقہ حکام سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتی لواحقین اپنا احتجاج جاری رکھینگے-