پاکستانی زیر قبضہ مقبوضہ کشمیرکے ایکٹ 1974 کی 15 ویں آئینی ترمیم کا 26 صفحات پر مشتمل حکومت پاکستان کی منظوری کے بعد تیار مسودہ ایکٹ 74کی طرح آزادکشمیر اسمبلی سے۔ پندرویں ترمیم کے نام پر منظور کروا دیا جائے گا فاروق حیدر مستعفی ہو کر تحریک چلاہیں گئے حسن ابراہیم بھی ان کا ساتھ دیں گئے۔
جس میں حکومت پاکستان نے آزاد کشمیر حکومت سے مالی اختیارات واپس لینے کے ساتھ ساتھ صوبہ کے برابر لاتے ہوئے وفاقی اکائی بنا دیا۔محکمہ قانون وانصاف پارلیمانی امور اور انسانی حقوق کا ترتیب دیا ہوا مجوزہ مسودہ (کنفیڈنشل) جو نمبر 2202-10-103/leg/LD. بتاریخ 29جون 2022 کو حتمی ہوا۔
پاکستانی زیر انتظام کشمیر سے وزیر زراعت میر علی اکبر،وزیر تعلیم دیوان چغتائی،وزیر شہری دفاع چوہدری اکبر ابراہیم،وزیر خزانہ عبدالماجد خان،وزیر تعمیرات عامہ اظہر صادق،وزیر قانون فہیم اخترربانی ،وزیر ہاؤسنگ یاسر سلطان اور سیکرٹری حکومت ارشاد قریشی پر مشتمل کمیٹی نے جو حتمی مسودہ تیار کیا اس کے مطابق لفظ ریاست اور اقوام متحدہ ختم کر دیے گے ہیں کونسل بحال کرتے ہوئے اس میں وزیراعظم پاکستان وزیر دفاع پاکستان وزیر خارجہ پاکستان سمیت 7 ممبرز اسلام آباد اور 6 آزاد کشمیر سے رکھے جانے کی تجویز ہے۔کونسل کی قانون سازی کو بالا دستی حاصل ہو گی کونسل کے فیصلوں کو اسمبلی میں زیر بحث نہیں لایا جاسکتا نہ کسی عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔چیف جسٹس صاحبان، اعلیٰ عدلیہ کے ججز، چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا اختیار وزیراعظم پاکستان کو حاصل ہوگا ان تقرریوں کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
کونسل کو ٹیکس اگٹھا کرنے اور اپنا بجٹ پیش کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔80 کھرب سے زائد مالیت کی پاکستان میں موجود کشمیر پراپرٹی کونسل کے دائرہ اختیار میں ہو گی۔
قانون ساز اسمبلی کے اراکین کی تعداد 56 کرنے کی تجویز ہے جس میں بھارتی مقبوضہ لداخ کیمتعلقہ دو اراکینِ اسمبلی نمائندگی کریں گے۔ وزراء کی تعداد 27 اور مشیروں کی تعداد تین ہوگی۔ آرٹیکل 2 کی ڈیفینیشن کلاز میں لفظ “گورنمنٹ” کی جگہ لفظ” جائنٹ سٹنگ ” کی تجویز ہے، یوں حکومت کی تعریف جو وزیراعظم اور اس کی کابینہ پر مشتمل ہوتی ہے اب جائنٹ سٹنگ حکومت کے معنوں میں شمار ہو گی۔
مجوزہ ترمیم نمبر 4 میں لفظ “ریاست” کی جگہ اب لفظ “آزاد جموں و کشمیر” شامل کرنے کی تجویز ہے،دوسرے الفاظ میں ریاست ختم اب ہم صرف آزاد جموں و کشمیر ہیں،صوبہ ہیں؟ صوبے کی طرح ہیں؟ یا کسی اور حیثیت میں؟……۔مگر ریاست نہیں۔
آرٹیکل 5 کی مجوزہ ترمیم میں صدر ریاست کے انتخاب کے لیے اسمبلی کے ساتھ کونسل کو شامل کیا جا رہا ہے۔
آرٹیکل 6 میں “اسمبلی” کی جگہ “جائنٹ سٹنگ” کا لفظ لکھا گیا ہے جس میں پاکستانی پارلیمنٹ کے وزیراعظم پاکستان سمیت 7 ممبرز شامل ہیں۔
آرٹیکل 14 کی ترمیم میں وزراء کی تعداد 27 اور مشیروں کی تعداد 3 کرنے کی تجویز ہے۔
آرٹیکل 19 کی مجوزہ ترمیم کے مطابق شیڈول تھری کے پارٹ B کے 22 اختیارات جو قانون ساز اسمبلی کو حکومت پاکستان کی رضامندی/منظوری سے حاصل تھے انھیں کشمیر کونسل کو دے دیا گیا ہے۔
اب چھوٹے بڑے تمام ہائیڈل پراجیکٹ ان سے پیدا ہونے والی بجلی، زیرِ زمین معدنیات، آزاد کشمیر کی عدالتوں کے دائرہ اختیار کا تعین، تعلیمی نصاب، سلیبس سب کے بارے قانون سازی ہماری اسمبلی نہیں کر سکتی۔
آرٹیکل 19 کے تحت کونسل کا بنایا ہوا قانون وزیراعظم پاکستان کی منظوری سے قانون بن جائے گا، اس معاملے میں قانون ساز اسمبلی کی قانون سازی کی حیثیت اب نام تک محدود کرنے کی تجویز ہے،آرٹیکل 22 کی مجوزہ ترمیم کے مطابق اسمبلی ممبرز کی تعداد 56 کرنے کی تجویز ہے جس میں بھارتی مقبوضہ لداخ کی نمائندگی کے لیے دو نشستیں شامل ہیں۔
آرٹیکل 41 کی مجوزہ ترمیم کے مطابق وزیراعظم پاکستان کے منظور کیے گے مسودہ کو قانون ساز اسمبلی رد نہیں کر سکتی۔
آرٹیکل 42 کے مجوزہ مسودے کے مطابق چیف جسٹس آف آزاد جموں و کشمیر کی تقرری کا اختیار وزیراعظم پاکستان کو حاصل ہوگا اس تقرری کے قانونی یا غیر قانونی ہونے کے بارے میں صدر ریاست اور کسی عدالت کو رائے دینے یا سماعت کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہوگا۔ہائیکورٹ کے ججز کی تقرری کا اختیار بھی وزیراعظم پاکستان کے پاس ہوگا اور اسے آزاد کشمیر کی کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
آرٹیکل 50 اور 50 اے کے تحت بالترتیب چیف الیکشن کمشنر اور آڈیٹر جنرل کی تقرری کا اختیار وزیراعظم پاکستان کے پاس ہوگا اور اسے کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔مجوزہ ترمیم کے مطابق کم وبیش 80 سے 85 کھرب مالیت کی کشمیر پراپرٹی کونسل کی
ملکیت ہو گی،آرٹیکل 53 میں مجوزہ ترمیم کے مطابق آزاد کشمیر میں ایمرجنسی لگانے کا اختیار وزیراعظم پاکستان کو دیاجائے گا۔