مغربی بلوچستان کے علاقے زاہدان میں پندرہ سالہ بلوچ بچی کی عصمت دری کیخلاف مشتعل عوام وفورسزمیں جھڑپوں کے دوران انٹیلی جنس چیف سمیت 19مظاہرین کی ہلاکت اور 20 کے زخمی ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔
مقامی ذرائع کے مطابق جمعے کے روز مظاہرین پر پولیس کی فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم 19 افراد ہلاک ہوگئے۔
ویڈیو میں دیکھا جاسکتا کہ فورسز کی فائرنگ سے افرا تفری مچھی ہوئی ہے اور لوگ زخمیوں کو اٹھا رہے ہیں جبکہ کئی افراد گولی لگنے سے زمین پر پڑے ہوئے ہیں۔
ایران انٹرنیشنل کی طرف سے جاری کردہ ایک اورویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سکیورٹی فورسز شہر میں احتجاجی مظاہروں کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن کر رہی ہیں۔ویڈیو میں گولیوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں جب مظاہرین ایک پولیس اسٹیشن کے باہر جمع ہو رہے ہیں۔
مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ مشتعل مظاہرین نے ایک تھانے کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
ایرانی حکام نے اب تک 2 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کردی ہے۔
خبررساں ادارے کے مطابق ہنگاموں کے دوران صوبہ سیستان و بلوچستان کے انٹیلی جنس کمانڈر سید علی موسوی سینے میں گولی لگنے سے زخمی ہوئے جہاں انہیں فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا پر وہ زخموں کے تاب نا لاتے ہوئے ہلاک ہوگئے ہیں۔
گذشتہ روز نماز جمعہ کے بعد مقامی افراد نے زاہدان کے مرکزی جیل کے سامنے مظاہرہ کیا، جس میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی تھی ذرائع کے مطابق مظاہرہ ایرانی فوج کے ایک آفیسر کے خلاف ہورہا تھا جنہوں نے مغربی بلوچستان کے ساحلی شہر چابہار میں ایک بلوچ لڑکی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔
دوسری جانب ایرانی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ مظاہرین مسلح تھے جنہوں نے مظاہروں کے دوران زاہدان میں 3 پولیس تھانوں پر حملہ کیا اور زاہدان کے دیگر مختلف 16 تھانوں پر مظاہرین کی جانب سے فائرنگ بھی کی گئی شہر کے کچھ علاقوں میں مظاہرین نے ٹائروں اور کچرے کے ڈبوں کو آگ لگا دی ہنگامہ خیز کارروائیوں کے تسلسل میں ایک فائر انجن، ایک ایمرجنسی اسٹیشن اور بعض دیگر مقامات کو آگ لگا دیا گیا۔
اسلامک کارڈز کے ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ ہنگاموں کے بعد سیکورٹی فورسز نے حالات کو قابو کرکے علاقے کا کنٹرول سمبھال لیا ہے جبکہ واقعے میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی جاری ہے۔