Site icon News Intervention

عمران خان کے نشانے پر آئی ایس آئی افسر میجر جنرل فیصل نصیر کون ہیں؟فرحت جاوید

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان گذشتہ چند ہفتوں سے اپنی تقاریر میں ’ڈرٹی ہیری‘ کا لفظ استعمال کرتے ہوئے کسی شخصیت کو تنقید کا نشانہ بناتے سنائی دیے ہیں۔ مثلاً حال ہی میں ایک تقریب کے دوران انھوں نے کہا تھا: ’اسلام آباد میں ایک ڈرٹی ہیری آیا ہوا ہے، اسے لوگوں کو ننگا کرنے کا شوق ہے۔‘

ان کے اس بیان کے بعد اسلام آباد کے سیاسی اور صحافتی حلقوں میں یہ سرگوشیاں ہونے لگ گئیں کہ آخر ان کا اشارہ کس طرف ہے۔ ان کے یہ بیانات سامنے آنے سے کچھ عرصہ پہلے سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کی حمایت کرنے والے کچھ صارفین نے ایسی ٹویٹس کیں جن میں اس ٹرانسفر پوسٹنگ کا حوالہ دیا گیا جو حال ہی میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی میں ہوئی تھی۔

بعدازاں عمران خان نے خود بھی یہی حوالہ دیا تاہم نام لینے سے گریز کرتے رہے۔ لیکن گذشتہ ایک ہفتے کے دوران سیاسی حالات تبدیل ہوئے ہیں اور عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جاری لفظی جنگ میں اب نام لے کر بات کی جا رہی ہے۔

عمران خان ’ڈرٹی ہیری‘ کا لقب استعمال کرتے ہوئے آئی ایس آئی کے ایک حاضر سروس افسر میجر جنرل فیصل نصیر کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

ان سے قبل انہی کی جماعت کے سینیٹر اعظم سواتی نے ایک پریس کانفرنس میں ’آئی ایس آئی کے دو افسران بریگیڈیئر فہیم اور میجر جنرل فیصل نصیر‘ کا نام لیا تھا اور یہ الزام لگایا تھا کہ وہ اُن پر دوران حراست تشدد میں ملوث تھے۔

عمران خان نے خود پر ہونے والے مبینہ قاتلانہ حملے کی منصوبہ بندی کا الزام بھی جن تین شخصیات پر لگایا ان میں سے ایک میجر جنرل فیصل نصیر ہیں۔ دیگر دو افراد میں وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ شامل ہیں۔

عمران خان نے جمعے کی شام  شوکت خانم ہسپتال سے کی گئی اپنی پریس کانفرنس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے مطالبہ کیا ہے کہ ’میجر جنرل فیصل نصیر کو عہدے سے ہٹایا جائے یا ان کا تبادلہ کیا جائے۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ان کے خلاف قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر درج کرانا چاہتے ہیں مگر ایسا نہیں کیا جا رہا۔

دوسری طرف پاکستانی فوج اپنے افسر کے دفاع کے لیے سامنے آئی ہے اور فوج کے تعلقات عامہ کے ڈائریکٹوریٹ یعنی آئی ایس پی آر نے ایک بیان جاری کیا ہے۔

اس بیان میں عمران خان کے الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے انھیں ’بے بنیاد اور غیر ذمہ درانہ، بلاجواز اور ناقابل قبول‘ قرار دیا ہے۔

فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’حکومت پاکستان سے اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے اور ادارے پر بے بنیاد الزامات سے اسے بدنام کرنے کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کیا جائے گا۔‘

میجر جنرل فیصل نصیر کون ہیں؟

فوجی افسر فیصل نصیر کو حال ہی میں میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی جس کے بعد وہ اگست میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی میں تعینات ہوئے ہیں۔

وہ آئی ایس آئی کے انٹرنل ونگ جسے عام طور پر ’پولیٹیکل ونگ‘ یا صرف ’سی‘ بھی کہا جاتا ہے، کی سربراہی کر رہے ہیں۔ اس عہدے کو عام طور پر ’ڈی جی سی‘ کہا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ اس سے مراد کاؤنٹر انٹیلیجنس نہیں، بلکہ محض ایک حرف کے طور استعمال ہوتا ہے۔ آئی ایس آئی میں ان کے علاوہ ڈی جی اے، بی وغیرہ جیسے مخفف بھی استعمال ہوتے ہیں۔

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی بطور میجر جنرل اسی عہدے پر تعینات رہے تھے۔

میجر جنرل فیصل نصیر نے فوج کی پنجاب رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔ اپنے کیریئر کے ابتدائی حصے میں ہی وہ کور آف ملٹری انٹیلیجنس میں چلے گئے جس کے بعد ان کا کیریئر انٹیلجنس اسائنمنٹس تک رہا ہے۔

اور یہی وجہ ہے کہ ان سے متعلق زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ وہ اپنے کیریئر کے دوران شورش زدہ علاقوں میں تعینات رہے اور اہم انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز کا حصہ رہے ہیں۔ انھوں نے گذشتہ دو دہائیوں کے دوران انتہائی مطلوب دہشتگردوں کو گرفتار کیا یا کیفر کردار تک پہنچایا۔

بلوچستان کے سابق وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے مطابق میجر جنرل فیصل نصیر فوجی حلقوں میں ’سپر سپائی‘ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

انھوں نے ایک ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’بطور سابق وزیر داخلہ بلوچستان میں ان کی اہلیت اور قابلیت کا معترف ہوں اور وہ اپنی قابلیت اور پیشہ ورانہ خدمات کی وجہ سے ’سپر سپائی‘ کے لقب سے جانے جاتے ہیں۔

انھیں اپنے اب تک کے کیریئر کے دوران تمغہ بسالت اور امتیازی سند جیسے گیلنٹری ایوارڈز (بہادری کے اعزازات) کے علاوہ آرمی چیف کمینڈیشن کارڈ بھی مل چکا ہے۔

خیال رہے کہ فوج میں دیگر گیلنٹری ایوارڈز میں بالترتیب نشان حیدر، ہلال جرات، تمغہ جرات، ستارہ جرات، تمغہ بسالت اور ستارہ بسالت شامل ہیں۔ جبکہ آرمی چیف کمنڈیشن کارڈ ایڈمنسٹریٹو کارکردگی پر دیا جاتا ہے۔

میجر جنرل فیصل نصیر فوجی حلقوں میں ایک سخت گیر اور پروفیشنل انٹیلجنس افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان سے قبل اس عہدے پر میجر جنرل کاشف نذیر تعینات تھے۔

اپنے کیریئر کے دوران جنرل فیصل دو مرتبہ بلوچستان میں تعینات رہے، انھوں نے سندھ اور بلوچستان میں متعدد بڑی انٹیلیجینس بیسڈ کاروائیاں کیں۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے بلوچستان کے سابق وزیر داخلہ سینیٹر سرفراز بگٹی نے بی بی سی کو بتایا کہ میجر جنرل فیصل بلوچستان میں انتہائی کشیدہ حالات کے دوران تعینات رہے ہیں۔

’میں انھیں اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ بطور جونیئر افسر بلوچستان آئے تھے اور انھوں نے دو بار بلوچستان میں اس وقت خدمات سرانجام دیں جب یہاں دہشتگردی اور عسکریت پسندی اپنی انتہا پر تھیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’مذہب اور قوم پرستی کے نام پر ہونے والے پرتشدد واقعات کے معاملات پر میجر جنرل فیصل کو مکمل عبور ہے۔ اور ان معاملات پر میں نے انھیں نہایت پیشہ ورانہ انداز میں جو کہ کسی انٹیلجینس ایجنسی کا خاصہ ہے، کام کرتے پایا ہے۔ وہ ایک بہت ذہین، اور محنت کرنے والے افسر تھے۔ ایسا بھی ہوا کہ اگر بطور وزیر داخلہ مجھے رات تین، چار بجے بھی ان کی کسی سرکاری معاملے پر ضرورت پڑتی تو وہ ہمیشہ دستیاب ہوتے تھے۔‘

ان کے مطابق میجر جنرل فیصل کاؤنٹر انٹیلجینس کے معاملے پر اس وقت فوج کے بہترین افسران میں سے ایک ہیں۔

’سندھ اور بلوچستان میں آپریشنز کی نوعیت ایسی تھی کہ ہم دن میں دفتر کا کام کرتے اور دہشتگرد اور مجرم رات کو اپنی کارروائیاں شروع کرتے، اس طرح ہم چوبیس گھنٹے ڈیوٹی دیتے جن میں میجر جنرل فیصل سرفہرست ہوتے تھے۔‘

’ہم نے انھیں انسداد دہشت گردی، اور کاؤنٹر انٹیلجنس کے معاملات جن میں چاہے لشکر جھنگوی ہو یا داعش یا دیگر ممالک کی ایجنسیاں، انھیں نہایت ذہانت اور پروفیشنلی کام کرتے دیکھا ہے۔‘

اس سوال پر کہ پی ٹی آئی کے بعض اراکین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ میجر جنرل فیصل نصیر سیاستدانوں اور صحافیوں کے خلاف کاروائیوں میں ملوث ہیں، سینیٹر سرفراز بگٹی نے کہا کہ ’انٹیلجینس آپریٹر کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ وہ ہر شخص کو اس کے مطابق ڈیل کرتا ہے۔ سیاسی لوگوں کو سیاسی انداز میں اور دہشت گردوں کو ان کے انداز میں۔ جب یہ بلوچستان اور سندھ میں تعینات تھے تو کبھی کسی سیاستدان کو ان سے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ان کی بلوچستان میں حالیہ اسائنمنٹ کےدوران وہاں پینسٹھ ایم پی ایز تھے مگر کبھی کسی نے یہ نہیں کہا انھوں نے کسی سے غلط انداز میں بات کی ہو یا انھیں عزت نہ دی ہو۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ سیاست چمکانے کا کھیل ہے۔‘

کیا وہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے متنازع بنائے جانے والے پہلے انٹیلیجینس افسر ہیں؟

اس سوال کا جواب نفی میں ہی ہے۔

میجر جنرل فیصل نصیر وہ پہلے ’ڈی جی سی‘ نہیں جن کا ذکر سیاستدانوں کی زبانوں پر اور میڈیا کی خبروں میں مل رہا ہے۔ ان سے پہلے موجودہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا نام اس وقت بار بار سامنے آیا جب وہ ڈی جی سی تھے۔

یہاں تک کہ فیض آباد کے مقام پر تحریک لبیک پاکستان اور اس وقت مسلم لیگ ن کی حکومت کے درمیان معاہدے کی دستاویز پر ثالث کے طور پر فیض حمید کے دستخط تھے اور معاملہ عدالت پہنچنے پر ان کا نام ہر طرف سنائی دیا تھا۔

بعدازاں فیض حمید آئی ایس آئی کے سربراہ بھی بنے اور مسلم لیگ ن کے قیادت بشمول سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز نے متعدد بار جنرل فیض حمید کا نام لیا اور ان پر ’سیاسی انجنیئرنگ‘ کے الزامات لگائے تھے۔

ان پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ مسلم لیگ ن کے عہدیداروں اور لیڈران کو دھمکیاں دی جاتی ہیں، ڈرایا دھمکایا جاتا ہے کہ وہ نواز شریف کا ساتھ چھوڑ دیں۔ یہ اسی قسم کے الزامات ہیں جو آج عمران خان موجودہ ڈی جی سی پر لگا رہے ہیں۔

اسی طرح جنرل فیض حمید کے بعد تعینات ہونے والے میجر جنرل عرفان ملک تھے جن کا نام مریم نواز نے لیا اور ان پر بھی سیاسی مداخلت کے الزامات لگائے گئے۔

آئی ایس آئی میں انٹرنل ونگ یا پولیٹیکل ونگ کیا ہے؟

آئی ایس آئی کا ’پولیٹکل ونگ‘ ذوالفقار علی بھٹو نے قائم کیا تھا لیکن اس وقت سرکاری یا باضابطہ طور پر آئی ایس آیس میں ’پولیٹیکل ونگ‘ موجود نہیں ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں سربراہان مملکت کے ایجنسی کا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے جیسے الزامات سامنے آتے رہے ہیں۔ مثلاً صدر جنرل ایوب نے اس ایجنسی کا استعمال سیاسی مقاصد کے لیے کیا جبکہ جنرل یحیٰ نے اس وقت مشرقی پاکستان میں مخالف سیاسی جماعتوں پر نظر رکھنے کے لیے آئی ایس آئی کو استعمال کیا تھا۔

مگر یہ ’پولیٹیکل ونگ‘ باضابطہ یا سرکاری طور پر طور پر آئی ایس آئی کا حصہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بنا۔ ان پر یہ الزام ہے کہ انھوں نے اس ونگ کے ذریعے اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنایا تھا۔ اب وہ ذمہ داریاں جو اس وقت ’پولیٹیکل ونگ‘ کی تھیں، اب آئی ایس آئی کی انٹرل ونگ کے زیر انتظام ہیں جو ملک کی اندرونی سکیورٹی سمیت دیگر امور کی نگرانی کرتی اور اس سے متعلق معلومات اکٹھی کرتی ہے۔

واضح رہے کہ آئی ایس آئی کے سابق چیف لیفٹینٹ جنرل فیض حمید نے خفیہ ادارے میں متعدد تبدیلیاں کیں اور کئی نئے ونگز اس کا حصہ بنے۔

آئی ایس آئی کے سٹرکچر سے متعلق ڈاکٹر ہین ایچ کیسلنگ نے اپنی کتاب ’دی آئی ایس آئی آف پاکستان ۔ فیتھ، یونٹی، ڈسپلن‘ میں ادارے کے تنظیمی ڈھانچے کو تفصیل سے بیان کیا ہے جس کی معلومات ان کے مطابق خود آئی ایس آئی نے انھیں مہیا کیں۔

وہ لکھتے ہیں کہ ادارے کے سات ڈائریکٹوریٹس ہیں اور ان سے منسلک کئی ونگز ہیں۔ 

ادارے میں سب سے بڑا ڈائریکٹوریٹ جوائنٹ انٹیلیجینس بیورو (جے آئی بی) جبکہ دوسرا بڑا ڈائریکٹوریٹ جوائنٹ کاؤنٹر انٹیلیجینس بیورو (جے آئی سی بی) ہے۔  جوائنٹ انٹیلیجینس بیورو کی سربراہی ڈپٹی ڈی جی کرتا ہے جن کے ماتحت پانچ ڈائریکٹرز ہیں اور ان کے ذمے سیاسی جماعتیں، انسداد دہشت گردی، وی آئی پی سکیورٹی، طلبا اور لیبر جیسے ڈپارٹمنٹس ہیں۔

اسی طرح جوائنٹ کاؤنٹر انٹیلجینس کی سربراہی ڈپٹی ڈی جی (ایکسٹرنل) کرتے ہیں اور اس ڈائریکٹوریٹ کی ذمہ داریوں میں غیر ملکی شہریوں اور سفارتکاروں، خود آئی ایس آئی اہلکاروں کی نگرانی بھی شامل ہے جبکہ یہ سیاسی سرگرمیوں کا حساب رکھتا ہے۔

تاہم آئی ایس آئی کا نام نہاد ’سیاسی ونگ‘ مختلف ادوار میں متنازع بنتا رہا ہے اور اس پر ’پولیٹیکل انجینیئرنگ‘ کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ اگرچہ اس ونگ کا بنیادی کام سیاسی سرگرمیوں اور لیڈران پر نظر رکھنا ہے کہ وہ کسی ملک دشمن سرگرمی کا حصہ نہ بنیں لیکن مختلف حلقے یہ الزامات لگاتے رہے ہیں کہ یہ کردار مبہم اور مشکوک ہے۔

اس عہدے پر تعینات افسر وسیع اختیارات کا مالک ہوتا ہے اور وہ سیاسی جماعتوں سے رابطے اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھتا ہے۔ عسکری ماہرین کے مطابق آئی ایس آئی میں یہ عہدہ اتنا اہم ہے کہ ماضی قریب میں اس عہدے پر تعینات رہنے والے افسران بعدازاں اس ادارے کے سربراہ بھی بنے۔ ان میں لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام، اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید شامل ہیں۔

لیکن یہ عہدہ اتنا ہی حساس بھی ہے جسے دو دھاری تلوار کہا جاتا ہے۔ اس عہدے پر رہنے والے افسران بعض اوقات ترقی نہیں پاتے۔ 

ماضی میں ایسے موقع بھی آئے جب اس ونگ کو ختم کرنے کی بات کی گئی۔ نومبر 2008 میں اعلان کیا گیا کہ آئی ایس آئی کی ’سیاسی ونگ‘ کو ختم کیا جا رہا ہے۔ اور اس کی ذمہ داریاں اب آئی بی نبھائے گی۔ یہ اعلان اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کیا لیکن اگلے ہی روز مقامی اخبار نے ایک سینیئر افسر کا نام لیے بغیر کہا کہ اس ونگ کا کام روکا گیا ہے تاہم اسے مکمل طور پر ختم نہیں کیا۔

جس کے بعد وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی اس ونگ کے خاتمے کا اعلان کیا۔ مگر جنرل کیانی کے دور میں بھی پولیٹیکل ونگ نے آئی ایس آئی میں ہی اپنا کام جاری رکھا۔

بعدازاں 2012 میں اس وقت کے وزیر دفاع چودھری احمد مختار نے تصدیق کی کہ ’آئی ایس آئی میں ہمیشہ پولیٹیکل ونگ موجود رہا ہے اور اب بھی کام کر رہا ہے۔

بشکریہ بی بی سی اُردو

Exit mobile version