Site icon News Intervention

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا خاندان چھ سال میں ارب پتی بن گیا.احمد نورانی

جنرل باجوہ کے بیوی بچوں اور دیگر رشتہ داروں  کے کاروبار ملک کی سرحدوں سے باہر؛ سرمائے کی بیرونِ ملک منتقلی اور وسیع جائدادوں کے بننے کے عمل کا آغاز

اس عمل میں لاہور کی ایک نوجوان لڑکی آرمی  چیف کے بیٹے کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتی ہے اور اپنی رخصتی سے نو دن قبل اربوں پتی ہو جاتی ہے جبکہ اس کی باقی تین بہنوں کی مالی حالت میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔

نوجوان لڑکی ماہ نور صابر ، گوجرانوالہ میں واقع  زمین،   پرانی تاریخوں میں، اپنے نام کرواتی ہے اور   یوں اپنی شادی  اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی  بہو بننے سے نو دن قبل ڈی ایچ اے گوجرانوالہ میں آٹھ پلاٹوں کی ملکیت حاصل کر لیتی ہیں۔

سال دو ہزار اٹھارہ کے اسی دن یعنی دو نومبر کو، یہی خاتون، اسلام آباد کی شاہراہِ دستور پہ واقع گرینڈ حیات ٹاور میں ایک اپارٹمنٹ کی مالک بھی بن جاتی ہے اور مزے کی بات یہ ہیکہ کاغذوں میں اس کا اندراج پرانی تاریخوں یعنی مالی سال دو ہزار پندرہ میں کیا جاتا ہے۔

یہ وہی وقت تھا کہ جب اسی ٹاور میں کئی اپارٹمنٹس مختلف  سیاستدانوں کے نام ہوئے ، جبکہ اس سے کچھ عرصہ قبل ہی اس وقت کے  چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس ٹاور کے مشکوک پراجیکٹ کو ایک عدالتی فیصلے کی رو سے قانونی قرار دیا تھا۔ 

جنرل باجوہ  کے خاندان نے لاہور کے صابر حمید  “مٹھو”  (ماہ نور کے والد اور قمر  باجوہ کے صاحبزادے سعد باجوہ کے سسر) کے ساتھ مشترکہ کاروباری منصوبے بھی شروع کیے اور اسی سال حمید نے سرمایہ پاکستان سے باہر منتقل کرنا اور جائیدادیں خریدنا شروع کر دیں۔

آرمی چیف جنرل باجوہ کی اہلیہ عائشہ امجد بھی اربوں پتی ہو گئیں   اور گلبرگ گرین اسلام آباد میں کئی کنالوں پہ محیط فارم ہاوسز کے علاوہ ڈی ایچ اے میں کمرشل پلازے اور دیگر جائدادیں یکدم ان کے نام ہونے لگیں۔ 

جنرل باجوہ کی اہلیہ ڈی ایچ اے لاہور کے فیز فور  اور فیز سِکس  میں دو کمرشل پلازوں کی بھی اس وقت مالک  بنیں   جب  وہ  چیف  کے عہدے پر تعینات تھے۔ ان کے خاندان نے بھی 2019 میں پاکستان سے باہر اثاثے منتقل کرنا شروع کیے اور دبئی میں متعدد جائیدادیں خریدیں۔ جنرل کی اہلیہ  نے اپنے یونائیٹڈ اسٹیٹس ڈالرز

(USD)

اکاؤنٹس میں  تقریباً نصف ملین ڈالر کی خطیر رقم رکھے رکھی۔ 

گزشتہ تین سالوں کے دوران فیکٹ فوکس اپنی تمام تر کوششوں کے جاوجود چیف کے بیٹوں کے اثاثوں کی تفصیلات کی کھوج نہیں لگا سکا۔ 

ایف بی آر کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ جنرل کی اہلیہ کو اثاثے چھپانے کی پاداش میں متعدد بار  خبردار کیا گیا ، فیکٹ فوکس ان ریکارڈز کی تفصیلات فالو اپ رپورٹ میں جاری کرے گا۔

جنرل قمر جاوید باجوہ  کے خاندان نے ٹیکس پاکستان کے نام سے تیل کے کاروبار کا بھی  آغاز کیا، جس کا مرکزی دفتر دبئی میں ہے، اور اگلے چند ہی دنوں میں انتہائی   برق رفتاری سے  ٹیکس

پاکستان نے پورے ملک میں کاروباری قدم جما لئے۔

قمر جاوید باجوہ جب لیفٹیننٹ جنرل بنے تو ان کی اہلیہ ٹیکس فائلر ہی نہیں تھیں۔ لاہور میں ان کا سب سے قریبی دوست صابر حمید  “مٹھو”  ایک اچھا بزنس مین تو تھا لیکن ارب پتی نہیں تھا۔ 

جوں ہی دونوں خاندان آگے بڑھے اور ان  کا تعلق دوستی سے رشتہ داری میں بدلا  تو دولت کی دیوی ان پہ اچانک مہربان ہو گئی۔

یوں چھ سال کی قلیل مدت  میں دونوں خاندان نہ صرف ارب پتی ہو گئے بلکہ  بین الاقوامی سطح پر  کاروبار شروع کیا، بیرونِ ملک متعدد  جائیدادیں خریدیں، سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنا شروع کیا،  اسلام آباد اور کراچی میں بڑے بڑے فارم ہاوسز ، لاہور میں کمرشل پلاٹوں، کمرشل پلازوں اور ایک بہت بڑے رئیل اسٹیٹ پورٹ فولیو کے مالک بھی بن گئے۔ پچھلے چھ سالوں کے دوران جنرل باجوہ کے خاندان کے ان تمام افراد کی طرف سے پاکستان اور بیرونِ ملک بنائی جانے والی جائدادوں اور قائم کئے گئے کاروباروں کی کل مالیت 12.7 ارب ہے۔

یہاں جنرل قمر جاوید باجوہ کے قریبی رشتہ داروں  اور خاندان کے مختلف افراد کے  مالی معاملات کی تفصیلات انفرادی طور پر دی گئی ہے

یہاں جنرل قمر جاوید باجوہ کے قریبی رشتہ داروں  اور خاندان کے مختلف افراد کے  مالی معاملات کی تفصیلات انفرادی طور پر دی گئی ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی اہلیہ عائشہ امجد سے شروع ہوتے ہوئے مٹھو (صابر حمید جو کہ جنرل باجوہ کے پرانے دوست اور ان کے بڑے بیٹے کے سسر ہیں) اور ان کے خاندان کے افراد قابلِ ذکر ہیں۔ جنرل باجوہ کے “اقتدار” کے چھ سالوں میں ان کے خاندان کی جائدادوں میں اضافہ ہونے کی ایک تصویر یہاں نظر آتی ہے۔

اس نمائندے نے پچھلے تین دنوں میں پاک فوج کے شعبہِ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار سے رابطہ کرنے کی مسلسل کوشش کی مگر انھوں نے کالز کا جواب نہیں دیا۔ صابر حمید مٹھو نے

بھی فیکٹ فوکس کی طرف سے رابطہ کرنے پر بات نہیں کی۔ اگر آرمی چیف یا صابر حمید کی طرف سے اس خبر کے حوالے سے کوئی بھی جواب دیا گیا تو اس کو من و عن شائع کیا جائے گا۔

باجوہ  کی اہلیہ، عائشہ امجد،  سے شروع ہوتی ہے اور   جناب”مٹھو” (صابر حمید،  جو کہ جنرل باجوہ کے پرانے دوست اور ان کے بڑے بیٹے کے سسر ہیں )، اور ان کے خاندان  کے دیگر افراد کے روزافزوں مالی ترقی جو کہ اربوں  پہ منتج ہوتی ہے۔

جنرل باجوہ نے مالی سال 2013 میں اپنے   ٹیکس گوشواروں  میں اپنی  اہلیہ کے نام تین جائیدادیں  ڈکلئیر کیں تھیں  جن کی تفصیلات مندرجہ ذیل ہیں: 

1- ڈی ایچ اے لاہور کے فیز  آٹھ میں آٹھ مرلہ کا کمرشل پلاٹ (درج قیمت: 3,000,000 روپے)،

2- ڈی ایچ اے اسلام آباد میں ایک کنال کا پلاٹ (درج کردہ قیمت: 1,500,000روپے)، اور

3-

ڈی ایچ اے لاہور کے  فیز چار میں  آٹھ مرلہ کا کمرشل پلاٹ (درج شدہ قیمت: 2,500,000 روپے)۔

ان تینوں جائیدادوں کی کم از کم مارکیٹ ویلیو اور  ان اثاثوں کی تفصیالات جو  جنرل  باجوہ کی اہلیہ نے  اس کے بعد  کے  چھ سالوں کے دوران جمع کیے ہیں ، کی تفصیلات اس سیکشن کے آخر میں  ملاحظہ فرمائیں ۔ 

جنرل باجوہ نے ابتدائی طور پر یہ ٹیکس گوشوارے   اور ویلتھ سٹیٹمنٹ   30 نومبر،  2013کو جمع کرائی تھی۔ تاہم چیف آف آرمی اسٹاف مقرر ہونے کے بعد انہوں نے اسی سال سے متعلقہ ویلتھ اسٹیٹمنٹس میں تین بار: 17 ستمبر 2017، نومبر 02، 2017، اور 08 نومبر 2017 کو نظر ثانی  کی۔ 

سال 2013 کے لیے نظرثانی شدہ ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں، جنرل باجوہ نے ڈی ایچ اے لاہور کے فیز  آٹھ میں ایک کمرشل پلاٹ شامل کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ  کہ درحقیقت انہوں نے یہ پلاٹ 2013 میں خریدا تھا لیکن ڈکلئرکرنا بھول گئے۔ مزے کی بات یہ ہیکہ یہ بھول چوک   اگلے چار سال  تک  یوں ہی جاری رہی  اور آرمی چیف بننے کے ایک سال بعد ہی 2017  میں یکدم انھیں سب کچھ یاد آگیا۔  

2016

جنرل باجوہ کی اہلیہ عائشہ امجد  10 اگست 2016 کو ٹیکس فائلر ہوئیں۔ ان کے شوہر کو نومبر 2016 میں ملک کا اگلا آرمی چیف مقرر کیے جانے کے لیے امیدوار تھے ۔

2016 کا سالانہ ریٹرن اور ویلتھ سٹیٹمنٹ ایف بی آر کے ساتھ ان کا پہلا اندراج تھا جو کہ اصل میں 28 اکتوبر 2016 کو  جنرل باجوہ کے آرمی چیف مقرر ہونے سے صرف تین ہفتے قبل جمع کرایا گیا تھا۔

اپنے 2016 کے ٹیکس گوشواروں میں  ، عائشہ امجد نے کسی وضاحت  کے   بغیر آٹھ ” دیگر اثاثے”  ڈکلئیر کئے۔ تاہم اسی سال کی ویلتھ اسٹیٹمنٹ پر  17 اپریل 2018 کو نظر ثانی کی گئی جب جنرل باجوہ آرمی چیف تھے۔ ٹیکس گوشواروں میں اثاثوں کی   کا ذکر کیا گیا تھا جن کی مارکیٹ ویلیو  درج ذیل ہے۔  عائشہ  امجد  نے گزشتہ مالی سال 2015 کے دوران ان ہی اثاثوں کی  قیمت صفر

ڈکلئیر کی  تھی۔


2017 کی ویلتھ استیٹمنٹ میں  نو “دیگر اثاثے”  ڈیکلئیر کئے گئے اور  دو مندرجہ ذیل  جائیدادوں کی وضاحت دی  گئی :

2- ڈی ایچ اے لاہور کے فیز نمبر پانچ میں  4047 مربع فٹ کا ایک زیر تعمیر فلیٹ۔

سال 2018 کے ٹیکس ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ عائشہ  امجد   نے پچھلے سال کے تمام اثاثوں کی ملکیت کے ساتھ ساتھ اس سال  مزید  پانچ  کمرشل اور رہائشی جائیدادیں خریدیں اور   ایک غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹ(امریکی ڈالر)  بھی ذکر   کیا۔  اس اکاونٹ میں  384,166 ڈالر کا بیلنس شو کیا جو کہ  کہ 35,691,882 پاکستانی روپے بنتے ہیں۔ 

مذکورہ بالا  پانچ کمرشل اور رہائشی جائیدادوں کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے: 

1- اوسز فارم ہاؤس ڈی ایچ اے کراچی (پیشگی ادائیگی)

2- پی اے ایف ہاؤسنگ اسکیم کراچی میں ایک اپارٹمنٹ (پلاٹ کے طور پر ذکر کیا گیا لیکن بعد میں اسے اپارٹمنٹ کے طور پر درست کیا گیا)

3- چار مرلہ کمرشل پلاٹ # C/E/00391، DHA فیز 9 لاہور

4- چار مرلہ کمرشل پلاٹ # PC/E/00132 DHA فیز 9، لاہور

5- سکھ چین ٹاور  اسلام آباد میں اپارٹمنٹ 2730 مربع فٹ (پیشگی ادائیگی)

ڈیکلئرڈ ویلیو، ویلتھ اسٹیٹمنٹ  میں بیان کی گئی ہے۔ان اثاثوں کی  کم از کم مارکیٹ ویلیو آخر میں  ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ 

ان اثاثوں کی مارکیٹ ویلیو متعلقہ سیکشن میں دیگر  تمام اثاثوں  کی ویلیو کے ہمراہ  بیان کی گئی ہے۔

اگلے سال 2019 کے ٹیکس  گوشواروں سے یہ بات سامنے آتی ہیکہ   تمام جائیدادیں اسی طرح برقرار رہیں ما سوائے ایک کے۔ اس کے علاوہ    ایک نئی جائیداد بھی ڈکلئیر  کی گئی۔ 

عائشہ  امجد نے اس سال ایک جائداد  بیچی اور اس کا سرمایہ 43,000,000 روپے تھا۔ انھوں  نے فوری طور پر تمام پاکستانی روپوں کو امریکی ڈالر میں تبدیل کیا۔ یاد رہے کہ ان دنوں پاکستانی کرنسی کی قدر تیزی سے گر رہی تھی۔

یہ رقم غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹ میں    656,030   امریکی ڈالر تک پہنچ گئی جو کہ  پاکستانی  66,083,330 روپوں کے برابر تھی۔ 

دوسرے بینک اکاونٹس  میں نقد  رقم  اور پرائز بانڈز لاکھوں میں تھے اور انہیں  گوشواروں سے تصدیق کیا جا سکتا ہے۔

 اس سال  مندرجہ ذیل جائیدادیں خریدیں / شناخت کی گئیں:

  

Exit mobile version