دنیا میں عظیم انسان، عظیم کردار کے مالک ایسے شاید ہزاروں جانثار گذرے ہیں جنہوں نے اپنی عظیم جدوجہد اور قربانیوں کی بدولت تاریخِ عالم میں ایسے قصے چھوڑے ہوں جو مورّخ کو اپنی خدمات اور جدوجہد پر قلم کشائی کیلئے مبذول کرایا ہو، کیونکہ ان لوگوں کی جدوجہد اور عظیم قربانیاں ایک معاشرے کے اندر جستجو پیدا کرنے کے سبب بنے ہیں. ایک منجمد معاشرے کو تجسس ہی توڑ سکتی ہے اور اس معاشرے کو سمت دیتی ہے. تاریخ میں ایسی ہستیاں گذری ہیں جنہوں نے سولی چڑھ کر یا سینے میں گولیاں کھا کر ایک منجمد معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہو، بحث و مباحثے کی رواج کو پروان چڑھایا ہو، ایک عہد کو بچانے اور ایک نسل کو امر کرنے کیلئے خود قربان ہونے کا فلسفہ اپنایا ہے۔ تاریخ میں ایسی ہستیاں سرخرو ہوئی ہیں جنہوں نے خود فنا ہو کر لوگوں کیلئے مشعل راہ بنے ہوں۔
جب دنیا میں آزادی کی تحاریک کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہاں محکوم قوموں کے ایسے بہادر سپوتوں کی طویل فہرست آپ کو مل جاتی ہے، جنہوں نے قومی آزادی اور معاشرے کی خوشحالی کی خاطر بے بہا کردار اور انمول کردار نبھا کر تاریخ میں اپنے نام سرخ حروف سے درج کیئے ہیں. لاطینی امریکہ میں امریکی سامراج کیخلاف جدوجہد کرنے والے عظیم انقلابی چے گویرا ہوں، متحدہ اور عظیم چین کے بانی چیئرمین ماؤزے تنگ یا دنیا کے مظلوم مزدوروں کی آواز بننے والے کارل مارکس، یہ سب ایسے عظیم کردار ہیں جو ظلم اور جبر کے خلاف اپنے لوگوں کی آزادی اور خوشحالی کیلئے تاریخ میں اپنا نام رقم کرکے امر ہوچکے ہیں۔
آج بھی دنیا میں قومی آزادی کی تحاریک و جدوجہد جاری ہیں، دنیا کے مختلف کونوں میں انسان قومی غلامی، مذہبی غلامی اور نسلی غلامی کے خلاف قابض کے خلاف بر سرِ پیکار ہیں، اس خطے میں کردوں کے بعد شاید دوسرا قوم بلوچ ہے جس کی زمین کو تین حصوں میں بانٹا گیا ہے۔
بلوچ قومی جدوجہد آزادی کا صحیح تاریخ کا اندازہ شاید میں نہ لگا سکوں یا یہ کہہ کر تاریخی حوالے سے رد ہو جاؤں کہ بلوچ قومی جہد آزادی پاکستانی قبضے سے ہی ابتداء ہوا کیونکہ بلوچ سرزمین تو اس سے پہلے ہی بٹ چکا تھا، ہاں البتہ موجودہ پاکستانی مقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی غلامی سے انحراف یا قابض کے خلاف للکار 1948 کے قبضے سے ہی ہوا تھا جو ہنوز جاری ہے. ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اس جدوجہد نے نشیب و فراز دیکھے ہیں لیکن جدوجہد اور بغاوت کا عنصر کبھی ختم نہیں ہوا ہے، مگر ان میں کرداروں کی کمی محسوس نہیں ہوئی ہے۔
بلوچ جدوجہد میں کرداروں کی ایک طویل فہرست ہے جو آغا عبدالکریم سے لیکر نواب نوروز خان، نورا مینگل، شیر محمد عرف شیروف، شہید اکبر خان بگٹی ،شہید بالاچ خان مری، شہید واجہ غلام محمد ،پروفیسر صبا دشتیاری اور شہید جرنل استاد اسلم بلوچ تک ہے۔
دنیا کی مزاحمتی تحاریک اور کچھ انقلابی کرداروں کا ذکر انہی کرداروں سے مماثلت ایک ایسے کردار کے کھوج میں تھا جسے جسمانی طور ہم سے جدا ہوئے ایک سال پورا ہوا، لیکن اپنوں کیلئے انکی مسکراہٹ اور دشمنوں کیلئے غصہ ہم آج بھی بھولے نہیں ہیں۔
ایک مہربان استاد، ایک شفیق باپ، ایک جنگی کمان اور ایک مزاحمتی استاد جس نے جنگی حکمت عملیوں کی سبب جنرل کا لقب پایا وہ استاد اسلم بلوچ تھا. آج سے اگر ہزاروں سال بعد جدوجہد اور قربانیوں کی تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں گے تو اس میں شہید اسلم بلوچ کا نام ضرور سنہرے حروف سے درج ہوگا۔
بلوچ تاریخ کا عجیب اتفاق ہے کہ شہید نوروز خان کی زندان میں شہادت اور شہید استاد اسلم بلوچ کی میدان محاذ میں شہادت کا دن بھی دسمبر کی 25 تاریخ ہے. بابو کی شہادت کے 53 سال بعد یہ تحریک کبھی تھما نہیں کبھی رکا نہیں بلکہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مزید ابھار آگیا۔
شہید استاد اسلم بلوچ اپنے جانثار فکری ساتھیوں کے ساتھ 25 دسمبر 2018 کو ہم سے جسمانی طور پر جدا ہوگئے، مگر انکی عظیم مزاحمتی فکر، انقلابی سوچ و ولولہ اور تعلیمات بتدریج تسلسل کے ساتھ جاری ہیں. قابض ریاست یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ بلوچ قومی تحریک آزادی جب بابو نوروز اور اکبر خان جیسے بزرگ قومی اور مزاحمتی رھبروں کی شہادت سے رکی نہیں تو استاد اسلم بلوچ کی شہادت سے کبھی ختم نہیں ہوگا، ریاست جاں لے کہ ان عظیم ہستیوں نے شیر کے بچے پالے ہیں جو گیدڑ جیسے دشمن پر جھپٹنا جانتے ہیں۔