ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھنے والے گروپ کے شریک بانی، احمد شیرانی کاکہنا ہے کہ زاہدان کے لوگ ایک بڑے فوجی اڈے میں قید ہیں، شہر میں مکمل فوجی حکمرانی ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ حکومت مخالف مظاہروں کے ہفتوں میں، سیکورٹی فورسز نے ایران بھر میں 500 سے زائد افراد کو ہلاک کیا ہے، جن میں درجنوں بچے بھی شامل ہیں اور 18,000 سے زیادہ کو حراست میں لیا گیا ہے۔
انسانی حقوق گروپ کے مطابق کم از کم 100 مظاہرین اس وقت پھانسی، سزائے موت کے الزامات یا سزاؤں کے خطرے سے دوچار ہیں۔ گروپ کے مطابق سیستان اور بلوچستان کے دارالحکومت زاہدان میں کم از کم 113 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
گروپ کا کہنا ہے کہ وہ ان میں سے 54 کی شناخت کی تصدیق کرنے میں کامیاب رہا، جن میں ایک 14 سالہ لڑکا عمر کبدانی بھی شامل ہے۔
شیرانی کہتے ہیں کہ مسلح افواج سڑکوں پر کھڑی ہوتی ہیں اور بعض اوقات وہ سادہ لباس اور یہاں تک کہ بلوچی روایتی لباس میں بھی ہوتی ہیں۔ فوجی اور سیکورٹی فورسز بھی شہر کے باہر اڈوں اور چوکیوں میں تعینات ہیں۔
انسانی حقوق کی ویب سائٹ کے ڈائریکٹر مسعود رئیسی کا کہنا ہے کہ یہ گرفتاریاں رہائشیوں کو ڈرانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ زاہدان میں صورتحال مارشل لاء جیسی ہے۔ تین افراد کا کوئی بھی گروپ سڑکوں پر کھڑا ہو گا تو اسے افسران کے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہر ہفتے جمعہ کے دن سیکڑوں لوگ سیستان و بلوچستان کے زاہدان اور دیگر شہروں کی سڑکوں پر سیکورٹی فورسز کی بھاری موجودگی کے باوجود اسلامی جمہوریہ اور سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں۔