Site icon News Intervention

شہداء کی لاشیں ان کی ورثاء کو نہ دینے کے اسباب و اثرات – بجار بلوچ

اطلاعات کے مطابق ۲۸ ستمبر ۲۰۲۰ کو بلوچ سرمچاروں کے خلاف ایک بڑی فوجی کارروائی کیلئے رات کی تاریکی میں پاکستانی فوج مختلف اطراف سے مکران کے مشہور پہاڑی سلسلہ مزن بند کے اندر بڑی تعداد میں داخل ہوئی ۔فوج کو اپنے مقامی جاسوس اور ڈیتھ اسکواڈز کے کارندوں کی بھی رہنمائی حاصل تھی شاید مخبروں نے فوج کو وہاں بلوچ سرمچاروں کے ایک بڑے گوریلا کیمپ کی موجودگی کی اطلاع دی تھی اس لئے فوج بڑی تیاری کے ساتھ مزن بند کے اندر داخل ہوئی تھی اطلاعات کے مطابق دن کے سہہ پہر تک فوج مزن بند کے اس علاقہ میں سرمچاروں کے کسی بھی تربیتی کیمپ کا کھوج نہ لگا سکا تھا البتہ فوج کی موجودگی سے بےخبر دو سرمچار سہہ پہر کے وقت وہاں آکر دشمن کے گھیرے میں پھنس گئے تھے یوں جارح فوج اور سرمچاروں کے درمیان جنگ چھڑ گئی تھی کہا جاتا ہے کہ فریقین کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ مغرب تک جاری رہا پھر خاموشی چھاگئی۔دونوں سرمچار بہادری کے ساتھ دشمن سے لڑتے لڑتے شہید ہو چکے تھےاس جھڑپ میں سرمچاروں نے جارح فوج کو بھی کافی جانی نقصان پہنچایا تھا مگر فوج نے حسب روایت اپنے جانی نقصان کو چھپایا البتہ سرمچاروں کے ہاتھوں مزن بند آپریشن میں ہلاک ہونے والے ایک فوجی افسر کی ہلاکت کسی اور علاقہ سے ظاہر کی گئی جبکہ تمپ کے رہائشی منیر احمد ولد عبدالرشید نامی ایک مخبر کی لاش کو لاکر فوج نے اس کے ورثا کے حوالے کیا تھا ایک اور زخمی مخبر کو علاج کی غرض سے کیچ کے ضلعی اسپتال میں داخل کرنے کی خبر بھی گردش کرنے لگی۔ فوج نے دونوں شپہید سرمچاروں کے لاشوں کی تصویریں میڈیا میں جاری کردی دوسری طرف سے بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان میجر گہرام بلوچ نے میڈیا میں ایک بیان کے ذریعے فوج کے ساتھ اس جھڑپ میں دو سرمچاروں کے شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے شہید ہونے والے سرمچاروں کی شناخت کیپٹن عرفان بلوچ عرف امداد ولد شہید غلام مصطفیٰ اور نورخان بلوچ عرف برمش ولد نور بخش کے نام سے ظاہر کیا۔

فوجی اہلکار دونوں شہداء اور مخبر کی لاشیں لے کر تمپ آگئے چونکہ شہداء کی شناخت ظاہر کی گئی تھی اس لئے ان کے ورثاء شہیدوں کی لاشیں حاصل کرنے کے لئے تمپ میں قائم فوجی کیمپ گئے مگر فوج نے لاشیں ان کے حوالہ کرنے کے بجائے انھیں انتظار کرنے کے لئے کہا تھاجس پر شہداء کے ورثاء رات کافی دیر تک وہاں انتظار کرتے رہے اس دوران فوجی اہلکار انھیں بےجا حراساں کرنے کیلئے مختلف طور طریقوں سے ان کی تضحیک کرتے رہے تاکہ وہ خوفزدہ یا مایوس ہوکر شہداء کی لاشیں وصول کیئے بغیر واپس گھر چلے جائیں مگر شہداء کے ورثاء صبر کے ساتھ بیٹھے انتظار کرتے رہے۔رات کے دس/ گیارہ بجے کے درمیان آخرکار ورثاء سے کہا گیا کہ وہ گھر چلے جائیں شہداء کی لاشیں صبح ان کے حوالے کی جائیں گی۔ کہا جاتا ہے کہ شہداء کی ورثاء کے وہاں سے چلے جانے کے بعد فوج نے ٹریکٹر کے ذریعے دو گڑھے کھود کر شہداء کے لاشوں کو ان میں دفنا دیا صبح جب شہداء کے ورثا لاشیں حاصل کرنے آئے تو فوج نے انھیں دو قبر یں دکھاتے ہوئے بتایا کہ لاشوں کو انہوں نے دفن کردی ہے شہیدوں کے ورثاء نے لاشوں کی اس طرح دفنانے کے عمل کو میتوں کی حرمت، اسلامی شعار ،عالمی قوانین و انسانیت کی توہین قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ انھیں ان قبروں کو کھولنے، شہداء کے لاشوں کی شناخت اجازت دی جائے تاکہ لاشوں کی شناخت کرکے نہ صرف انھیں تسلی ہوجائے کہ وہاں مٹی کے نیچے واقعی ان جان نثاروں کی لاشیں ہیں بلکہ وطن کی آزادی کیلئے امر ہونے والے ان بہادر فرزندوں کی نمازِ جنازہ اسلامی عقائد کے مطابق پڑھ کر احترام کے ساتھ انھیں سپرد خاک کیا جا سکے۔

فوج نے شہداء کے مبینہ قبروں کو کھولنے، ان کی شناخت قائم کرنے،ان کی نماز جنازہ پڑھنے اور احترام کے ساتھ ان کی تجہیز و تکفین کرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا جس پر فوج کے خلاف عوامی غصے نے احتجاج کی شکل اختیار کی اور یہ احتجاج تمپ سے نکل کر پورے مکران میں پھیل گیا تربت، کیچ میں شہداء کے ورثاء نے اس بارے میں پریس کانفرنس کی اور شہید فدا چوک پر احتجاجی دھرنا بھی دیا۔ حقوق انسانی کے کارکن ،سیاسی اور سماجی حلقے بھی شہداء کی ورثاء کے اس مطالبے کی حمایت میں ان کے ساتھ احتجاج میں شامل ہوتے گئے حتیٰ کہ اس مطالبے اور احتجاج کی گونج کراچی میں بھی سنائی دینے لگی مگر ان سب کے باوجود اب تک ( تا دم تحریر ہذا ) فوج شہداء کی لاشیں ان کی ورثاء کے حوالہ کرنے سے انکاری ہے جس کے باعث نہ صرف عوامی غم و غصہ بڑھ رہی ہے بلکہ شہداء کے خلاف استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی نوعیت اور لاشوں کے ساتھ برتاؤ کے حوالے سے بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے اور طرح طرح کی چہ مگوئیاں ہونے لگی ہیں۔ سوال یہ اٹھ رہی ہے کہ آخر فوج بلوچ شہداء کی لاشوں کو یوں رات کے اندھیرے میں دفنا کر کیا چھپانا یا کیا جتانا چاہتی ہے؟ گوکہ پاکستانی قابض فوج کی طرف سے بلوچ شہداء کی لاشوں کو تجہیز و تکفین کیلئے ان کے ورثاء کے حوالہ کرنے سے انکار کا یہ پہلا واقع نہیں ہے اس سے پہلے ایسے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں ۲۰۰۶ میں پاکستانی فوج نے بزرگ بلوچ قومی رہنما نواب محمد اکبر خان بگٹی اور اس کے جان نثار ساتھیوں کی لاشیں بھی تجہیز و تکفین کیلئے ان کی ورثاء کے حوالہ کرنے سے اسی طرح انکار کیا تھا۔

ذیل میں ھم لاشوں کی عدم حوالگی کے غیرمہذب عمل کے ممکنہ اسباب اور بلوچ سماج و تحریک آزادی پر اثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔

جیسا کہ بعض حلقے خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ ہوسکتا فوج نے عرفان بلوچ اور نورخان بلوچ کے خلاف کوئی ممنوعہ ہتھیار، گیس یا مواد استعمال کیا ہو اور اپنا یہ جرم چُھپانے کیلئے فوج ان شہداء کی لاشیں ان کی ورثاء کے حوالہ کرنے سے انکاری ہے تاکہ شہداء کے ورثاء لاشوں کی پوسٹ مارٹم کر وا کر کہیں فوج کے جنگی جرائم کو بےنقاب نہ کریں،

چونکہ شہید عرفان بلوچ اور شہید نور خان بلوچ محض دو نفر ہونے کے باوجود تین گھنٹے سے زائد وقت تک فوج کی بھاری نفری کا نہ صرف بہادری سے مقابلہ کرتے رہے بلکہ فوج کے کئی اہلکاروں سمیت ان کے ایک آفیسر اور اہم مخبر کو ہلاک بھی کیا ۔ہوسکتا ہے کہ فوجی اہلکار اپنے اس بھاری جانی نقصان سے مشتعل ہوکر نفرت کے اظہار کے طور پر شہداء کے لاشوں کی بے حرمتی کی ہو، انھیں مسخ کیا ہو اور اپنے اس جرم کو چپھپانے کیلئے شہداء کے لاشوں کو راتوں رات اندھیرے میں سپرد خاک کیا تاکہ لاشوں پر ان کی نفرت اور وحشی پن کے ثبوت کسی کو نظر نہ آئیں۔ یہ تو سرمچار تھے جنہوں نے دوران جنگ فوج کو کاری ضرب بھی لگایا تھا جس کی وجہ سے شہداء سے فوجی اہلکاروں کی نفرت اور اس نفرت کے باعث لاشوں کی توہین اور بے حرمتی پاکستانی فوج جیسے غیرپیشہ ور اور غیرمہذب دشمن کے ہاتھوں سرزد ہونا کوئی بےبنیاد قیاس آرائی نہیں بلکہ ان وحشیوں سے ایسے کسی غیر مہذب حرکت کا سرزد ہونا یقینی ہے کیونکہ شہید حیات بلوچ کے قتل کے واقع سے پوری دنیانے بلوچوں سے پاکستانی فوج کی نفرت و عداوت اور مقبوضہ بلوچستان میں فوج کی بے لگام ہونے کی جھلک دیکھ لیا۔

ایک وجہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فوج بلوچ شہداء کو یوں لاوارثوں کی طرح دفن کرکے اپنے تئیں انھیں نشان عبرت بنانا چاہتی ہے تاکہ اسطرح وہ بلوچ عوام میں خوف و دہشت پھیلا کر انھیں قومی آزادی کی شعوری جدوجہد اور مزاحمت سے باز رکھ سکے۔ اگر پاکستانی فوج کی اس جنگی جرم اور غیرمہذب عمل کے پیچھے یہ مقصد ہے تو وہ اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے کیونکہ شہداء کے ورثاء اور عوام اس غیر انسانی عمل سے دب جانے اور خوف و دہشت کا شکار ہونے کے بجائے فوج کے خلاف آواز اٹھاکر احتجاج اور مزاحمت کا راستہ اپنایا ہے اس بارے میں شہید عرفان بلوچ کی والدہ صاحبہ کی ویڈیو پیغام کو سوشل میڈیا میں دیکھ کر اپنے سفاکانہ حکمت عملی کی ناکامی پر فوج کو ضرور شرمندگی اور پریشانی ہوگی۔

شہید عرفان جان اور شہید نورخان بلوچ کی لاشوں کو کفن و دفن کرنے کیلئے ان کے ورثاء کو دینے کے بجائے رات کے اندھیرے میں چوری چھپے لاوارثوں کی طرح دفنانے کا مقصد شہداء کے نمازہ جنازہ میں عوام کی شرکت اور عوامی موبلائزیشن کو روکنا بھی ہوسکتا ہے کیونکہ قابض پاکستان بلوچ عوام کی سیاسی و قومی شعور اور موبلائزیشن سے بری طرح خوفزدہ ہے اگر شہداء کی لاشوں کو نہ دینے کا مقصد عوامی موبلائزیشن کو روکنا تھا تو اپنے اس مقصد میں بھی فوج بری طرح سے ناکام و نامراد ہوا ہے کیونکہ ویسے تو شہدا کے جنازے میں تمپ اور قرب وجوار سے عوام شرکت کرکے انھیں خراج عقیدت پیش کرتے جبکہ لاشیں نہ دینے کی وجہ سے عوامی موبلائزیشن اور احتجاج تمپ سے نکل کر کیچ سے کراچی تک پھیل گیا اور مختلف علاقوں سے لوگ میڈیا میں فوج کی مزمت اور شہداء کو ان کی عظیم اور قابل فخر قربانی پر خراج عقیدت پیش کرنے کرنے لگے ہیں۔

واقعی جب مقصد ہی غلط و ناجائز اور نیت بری ہو تو عقل کام کرنا چھوڑ دیتی ہے اور ساری تدابیر کے نتائج الٹ نکل آتے ہیں۔ شہداء کے ورثاء اور بلوچ عوام کی ردعمل سے ظاہر ہورہا ہے کہ پاکستانی فوج کی اس غیرمہذب عمل کے بلوچ سماج اور تحریک آزادی پر مثبت اثرات پڑے ہیں کیونکہ شہید عرفان بلوچ اور شہید نورخان کی لاشوں کو ان کی ورثاء کے حوالہ نہ کر کے فوج نے مقبوضہ بلوچستان میں پاکستان کی نوآبادیاتی قبضہ اور بلوچ قوم کے خلاف اس کی نفرت و عداوت کو مزید بےنقاب کردیا۔ نہ صرف یہ بلکہ بلوچ قوم پر قومی آزادی کی ضرورت کو بھی نئی شدت سے آشکار کردیا ہے جس کے باعث شہداء کے ورثاء اور بلوچ عوام خوفزدہ اور خاموش ہونے کے بجائے احتجاج اور مزاحمت کا راستہ اختیار کیا ہے۔

Exit mobile version