بھارتی ریاست اتر پردیش میں جبری تبدیلی مذہب یا مبینہ ‘لو جہاد’ کے خلاف قانون وضع کیے جانے کے بعد پہلے ہفتے میں ہی ریاستی پولیس نے چھ ایف آئی آرز درج کرتے ہوئے 29 افراد کے خلاف کارروائی کی ہے۔ پولیس نے 10 افراد کو گرفتار بھی کیا ہے۔
یہ قانون مبینہ طور پر لالچ، زبردستی یا دھوکے سے مذہب کی تبدیلی اور ‘جبراً’ بین المذاہب شادیوں کے واقعات روکنے کے لیے منظور کیا گیا ہے۔ مذکورہ قانون کے تحت کی جانے والی کارروائی میں ضمانت بھی نہیں ہوتی۔
اس قانون کے تحت پہلی ایف آئی آر قانون منظور ہونے کے ایک روز بعد ہی ضلع بریلی میں درج کی گئی اور ایک شخص کو گرفتار کیا گیا۔ اس کے علاوہ دیگر چار اضلاع سیتاپور، مراد آباد، مﺅ اور مظفر نگر میں بھی ایک ایک رپورٹ درج کی گئی ہے۔
پولیس کے مطابق اس قانون کے تحت گرفتاریاں سیتاپور، بریلی اور مراد آباد میں ہوئی ہیں۔
پولیس کے ایک سینئر افسر کے مطابق سیتاپور میں سات افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جب کہ مراد آباد پولیس نے جمعے کو دو مسلم بھائیوں کو اس وقت گرفتار کیا جب وہ ایک ہندو خاتون کے ساتھ ہونے والی شادی کو رجسٹر کرانے رجسٹرار آفس جا رہے تھے۔
ایک اور پولیس افسر اجے گوتم کے مطابق مراد آباد میں ہونے والی گرفتاریاں خاتون کے اہلِ خانہ کی شکایت پر کی گئیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ان تمام معاملات میں لڑکے مسلم اور لڑکیاں ہندو ہیں۔ حالاں کہ لڑکیوں نے پولیس کو بیان دیا ہے کہ انہوں نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔ لیکن پولیس نے مذکورہ قانون کے تحت کارروائی کی ہے۔
اس معاملے پر سینئر تجزیہ کار اور انسانی حقوق کے کارکن سید منصور آغا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ معاملے کے دو پہلو ہیں۔ ایک سماجی اور دوسرا قانونی۔ ان کے مطابق بھارت میں بین المذاہب شادیاں صدیوں سے ہوتی آئی ہیں۔
سید منصور آغا کہتے ہیں کہ اس وقت چوں کہ بھارت مختلف مسائل سے دوچار ہے، اس لیے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے اتر پردیش کی حکومت نے یہ شوشہ چھوڑا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک ‘لَو جہاد’ کے الزام کا تعلق ہے تو اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ پارلیمنٹ تک میں بیان دیا گیا ہے کہ ‘لَو جہاد’ کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
واضح رہے کہ بھارت میں گاہے بگاہے ‘لو جہاد’ کا موضوع زیرِ بحث رہتا ہے۔ اِن دنوں یہ اصلاح ایک مرتبہ پھر خبروں کی زینت بنی ہوئی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ‘لو جہاد’ ایک اصطلاح ہے جس کا اختراع دائیں بازو کی ہندوتوا نواز جماعتوں نے ہندو خواتین کی مسلم مردوں سے ہونے والی شادی کے بارے میں کیا ہے۔
‘لو جہاد’ کی اصطلاح کا پرچار کرنے والے الزام عائد کرتے ہیں کہ مسلم لڑکے ہندو لڑکیوں کو اپنی محبت کے جال میں پھنسا کر ان کا مذہب تبدیل کراتے ہیں اور پھر ان سے شادی کرلیتے ہیں۔
منصور آغا کے مطابق لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور متاثر ہوتے ہیں۔ محبت ہو جائے تو وہ شادی کر لیتے ہیں۔ ایسی شادیوں میں زور زبردستی کا الزام غلط ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں ایسے کئی رہنما ہیں جن کی بیویاں دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتی ہیں۔
سید منصور آغا نے مذکورہ قانون کے تحت پولیس کارروائیوں کو غیر مناسب اور غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں امید ہے سپریم کورٹ اس بارے میں کوئی مناسب فیصلہ کرے گی۔
دوسری جانب بی جے پی کے اتر پردیش کے ایک رہنما شانت پرکاش جاٹو نے کہا ہے کہ یہ قانون جبراً تبدیلی مذہب اور دھوکے سے کی جانے والی شادیوں کے واقعات روکنے کے لیے بنایا گیا ہے اور اس قانون کی ضرورت تھی۔