افغان وزارت تعلیم نے پورے ملک میں پرائمری اسکول کی عمر کے تمام بچوں کے لیے ایک منفرد اور غیر متوقع منصوبہ تیار کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت سبھی چھوٹے افغان بچے بچیاں پہلے تین سال اسکولوں کے بجائے قریبی مساجد میں پڑھیں گے۔
کابل میں ملکی وزارت تعلیم کا یہ منصوبہ اتنا اچانک اور غیر متوقع ہے کہ اس پر وسیع تر عوامی حلقوں کی طرف سے فوراً شدید تنقید کی جانے لگی ہے۔ اس منصوبے کے تحت پہلی سے تیسری جماعت تک کے تمام طلبا و طالبات کو پرائمری اسکولوں کے بجائے قریبی مساجد میں بھیجا جایا کرے گا۔
وزارت تعلیم نے یہ بات اپنے ایک ایسے بیان میں کہی ہے، جو ہفتہ پانچ دسمبر کو رات گئے شائع کیا گیا۔ بیان کے مطابق مساجد میں تعلیم و تربیت کے پہلے تین سال مکمل کرنے کے بعد ان بچوں کو پرائمری کی باقی ماندہ تعلیم کے لیے ‘عام غیر مذہبی اسکولوں‘ میں بھیجا جایا کرے گا۔
افغان وزارت تعلیم نے کہا ہے کہ اس منصوبے کا مقصد بچوں کی تعلیم و تربیت میں مذہب کے طور پر اسلام کے ‘زیادہ مرکزی کردار‘ کو یقینی بنانا ہے۔
اس سرکاری اعلان کے ساتھ ہی افغان عوام کی طرف سے اس پر کھل کر تنقید کی جانے لگی ہے۔ بہت سے عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے کسی بھی اقدام سے ملک میں انتہا پسندی کی مزید حوصلہ افزائی ہو گی۔
اس اعلان کے بعد معروف افغان ادیب اور شاعر یعقوب یسنا نے اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا کہ مساجد میں مناسب تعلیمی ماحول نہیں ہوتا اور تعلیم کے ابتدائی تین برسوں کے لیے چھوٹے چھوٹے بچے بچیوں کو مساجد میں بھیجنے کا مطلب تعلیم اور مذہب دونوں کا غلط استعمال ہو گا۔
معروف افغان صحافی مختار وفائی نے کھل کر کہا ہے کہ اس طرح کے کسی بھی فیصلے اور اس پر عمل درآمد کا مطلب افغان معاشرے کو ‘طالبانائزیشن‘ کی طرف دھکیلنا ہو گا۔
ہندو کش کی اس ریاست میں جب 1990ءکی دہائی میں ملکی سطح پر اقتدار طالبان کے پاس تھا، تب بھی وہاں عام اسکول کام کرتے تھے حالانکہ تب اسلامی مدارس یا مذہبی تعلیمی ادارے بھی عام تھے۔
اسی طرح آج بھی طالبان عسکریت پسند اپنے زیر اثر علاقوں میں طلبا کو کہتے ہیں کہ وہ عمومی غیر مذہبی تعلیمی اداروں میں اپنی تعلیم بھی جاری رکھیں لیکن ساتھ ہی دینی مدارس میں بھی باقاعدگی سے پڑھائی کے لیے آتے رہیں۔
لیکن وزارت تعلیم کا یہ نیا منصوبہ تو طالبان کے موقف سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔
اسکول جانے کی عمر کے لیکن تعلیم کے لیے کسی بھی اسکول میں نہ جانے والے بچوں کی تعداد اور تناسب کے لحاظ سے افغانستان کا شمار پہلے ہی دنیا کے سب سے برے ریکارڈ والے ممالک میں ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں تقریباً 3.7 ملین بچے جنگ، غربت اور سماجی اور ثقافتی رکاوٹوں کے باعث اسکولوں میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ ایسے بچوں میں سے 60 فیصد لڑکیاں ہوتی ہیں۔