بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے کہا ہے کہ واشک اورپنجگورکے بندوبستی اضلاع کے علاقوں گچگ اورراگئے میں پاکستانی فوج کی بربریت اپنی انتہا کو پہنچ ہے،گچک،ٹوبہ،سولیر،سُکن،کہن سمیت اکثرعلاقے نازی طرزپر کنسنٹریشن کیمپوں میں تبدیل کئے جاچکے ہیں۔ علاقے کے لوگوں کے لیے روزانہ فوجی کیمپ میں حاضری لازمی قراردیا چکاہے۔ حتیٰ کہ فوجی اجازت کے بغیر کوئی شخص اپنے گھرکے لئے راشن تک نہیں خرید نہیں سکتا۔
ترجمان نے کہا کہ اس مہینے کی تین تاریخ کو پاکستانی فوج نے دوبزرگ خواتین سمیت 9افراد کو حراست میں لے کر کیمپ منتقل کردیا،جس کے دوسرے روزایک افواء چلائی گئی کہ خواتین کو رہا کردیا گیاہے لیکن خواتین اور دوسرے لوگ ابھی تک فوج کے تحویل میں ہیں۔ ان میں درمحمدولد یارجان اور اس کی اہلیہ مریم،محمد کریم ولد یاراوراس کی اہلیہ شاہ پری، یارجان ولد دلمراد، راشد ولد عوض، اجمل ولد شاہجان، وحید ولد قادربخش، سلیم ولد محمد جمعہ شامل ہیں،ان تمام لوگوں کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہے۔
انہوں نے کہاگچگ میں امسال فروری کے مہینے سے پاکستانی فوج نے تباہ کن آپریشن شروع کیاتھا جو آج بھی شدت کے ساتھ جاری ہے۔پہلے مرحلے میں پہاڑی سلسلوں میں آباد لوگوں کو جبری نقل مکانی کا نشانہ بناکر فوجی کیمپوں اور چوکیوں کے قریب رہنے پر مجبورکردیا۔ اکثر لوگوں کے گھروں کو نذرآتش کیاگیاجبکہ مال مویشی لوٹ لیے گئے، پہاڑی لوگوں کا ذرائع آمدنی صرف مالداری سے وابستہ ہے۔ یوں جبری نقل مکانی سے فوج نے ان سے روزگار کے ذرائع چھین لئے،اب یہ لوگ نان شبینہ کا محتاج ہوکر رہ گئے ہیں۔اس پر یہ ستم مستزادکہ اس دوران فوج نے بے شمار لوگوں کو حراست میں لے کر زندانوں میں منتقل کردیا جوابھی تک فوج کے تحویل میں ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ گچگ کے مختلف علاقوں میں جس شخص کو بھی اپنے محلے سے باہر جانا ہوتواسے سب سے پہلے فوجی کیمپ میں حاضرہوکر اندراج کرانا پڑتا ہے کہ اسے کہاں اور کس مقصد کے لئے جاناہے لیکن یہ بھی فوج کی مرضی پر منحصرہے کہ وہ اس شخص کو کہاں تک جانے کی اجازت دیتاہے۔ واپسی پر پہلے فوجی کیمپ میں اندراج کرنا پڑتاہے۔ اگرکسی گھر میں کوئی جس بھی نوعیت کامریض ہوتو اسے ڈاکٹرکے پاس نہیں لے جاسکتے ہیں بلکہ سب سے پہلے انہیں فوج میں اندراج اوراجازت نامہ حاصل کرنے کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہافوج نے گچگ کے لوگوں کو ایک مخصوص مقدارتک راشن خرید کر لانے کی اجازت ہے۔ جس شخص نے اس مقررہ حدسے زائد راشن لانے کی کوشش کی تو وہ شخص اور دکاندار دونوں فوجی بربریت کا یقینی نشانہ بن سکتے ہیں۔ یہ یہاں ختم نہیں ہوتا بلکہ فوج ہر ہفتے تمام گھروں میں جاکرراشن چیک کرتاہے تاکہ یقینی بنائے کہ انہوں نے راشن مقررہ مقدارسے زیادہ استعمال تو نہیں کی ہے،مقررہ مقدارسے زیادہ راشن کے استعمال پر بے شمار لوگوں کو فوجی وحشت کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ کئی لوگ اس الزام میں اٹھاکر لاپتہ کئے بھی جاچکے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ فوجی بربریت کے ساتھ ریاستی آلہ کار ڈیتھ سکواڈ بھی نہایت سرگرم ہے،ان علاقوں میں زیادہ علی حیدرمحمدحسنی اوراس کے نائب غلام رسول ساجدی کا گروہ بڑی تعدادمیں سرگرم ہے،چوری اورڈکیتی معمول بن چکا ہے،قتل و غارت گری،روزانہ غریب لوگوں کے مال مویشی،بیل گائے چوری کرنا،موٹرسائیکل چھیننا،دکانوں کو لوٹنااورآپریشنوں میں فوج کے ساتھ ہمکاری ان کا پیشہ ہے۔ان بہیمانہ مظالم سے لوگوں کے لیے زندگی اجیرن بنادی گئی ہے۔
انہوں نے کہا گچگ کے اکثرعلاقے مواصلاتی نظام سے محروم ہیں،فوجی بربریت کی زیادہ ترخبریں کم ہی باہر آتے ہیں۔ اس لیے لوگ گچگ میں جاری فوجی وحشت خیزکاروائیوں سے آشنا نہیں ہوتے ہیں۔
ترجمان نے کہاپاکستان بلوچ قوم کو شدت کے ساتھ اجتماعی سزاکا نشانہ بنارہاہے اورپاکستان سمجھتاہے اس طرح کے اقدامات سے بلوچ قوم کو سر تسلیم خم پر مجبورکرے لیکن قوموں کی تاریخ بارہاثابت کرچکاہے کہ ایسی بریریت اوردہشت گردی سے کسی قوم کو زیادہ دیر تک دبایا نہیں جاسکتاہے۔