پری گل بلوچ نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماء ماما قدیر بلوچ و دیگر کے ہمراہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا خاندان گذشتہ سات سالوں سے فوجی آپریشنوں سمیت دیگر طریقوں سے جبر سے متاثر ہے، گومازی میں ہمارے گھروں کو ایک فوجی آپریشن میں نذر آتش کیا گیا اس کے بعد بھی ہمیں ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری رہا جس کے بعد ہمیں مجبوراً علاقے سے نقل مکانی کرنی پڑی۔
ماہل بلوچ کی نند پری گل بلوچ نے کہا میں گذشتہ کئی عرصے سے بطور سماجی کارکن بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھاتی رہی ہوں جس کا حق پاکستان کے آئین و قانون دیتی ہے۔ گذشتہ مہینے ماہل بلوچ کو ان کی دو کمسن بچیوں کے علاوہ میری والدہ اور میری ایک اور بھتیجی کو سیٹلائیٹ ٹاؤن میں گھر سے گرفتار کیا گیا سکیورٹی فورسز کے اہلکار سیٹلائیٹ ٹاؤن میں انکے گھر آئیں اور وہاں مرکزی دروازے پر پہلے چوکیدار کو تشدد کا نشانہ بنایا اور اس کے بعد گھر میں داخل ہوئے جبکہ اگلے روز ماہل کے علاوہ دیگر افراد کو ایک ویرانے میں چھوڑ دیا گیا۔
پری گل بلوچ نے بتایا ہم اس بات کو پہلے ہی میڈیا کے توسط سے واضح کرچکے ہیں کہ ماہل بلوچ کو گھر سے جبری لاپتہ کیا گیا جبکہ زمینی حقائق کے باوجود کاونٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی)نے انکی گرفتاری سیٹلائیٹ ٹاؤن میں لیڈیز پارک سے ظاہر کی۔
انہوں نے کہا ماہل بلوچ کی اغواء نما گرفتاری کیخلاف ہم نے اپنا احتجاجی دھرنا قانون پر بھروسے کی بنیاد پر ملتوی کردیا تھا جہاں حکام نے ہمیں یقین دلایا کہ ماہل کو قانون کے تحت انصاف فراہم کیا جائے گا آج ماہل کی اغواء نما گرفتاری کو ایک مہینے سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن اس تمام عرصے میں اس کو پانچویں بار ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا گیا جبکہ عدالت میں حاضری کے وقت اسکی حالت تشدد کے اثرات کو ظاہر کررہی تھی۔
انکا کہنا تھا ریمانڈ پر ریمانڈ کے بعد گذشتہ دنوں حکومت بلوچستان و (سی ٹی ڈی) حکام نے ماہل کا میڈیا ٹرائل کیا جس میں انہیں ماروائے قانون مجرم قرار دیا گیا اور اس کے لیے سوشل میڈیا کا بھی سہارا لیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کیلئے آواز اٹھانے کو جرم قرار دیا جاچکا ہے مذکورہ میڈیا ٹرائل میں خاندان کے دیگر افراد سمیت مجھے مجرم قرار دیتے ہوئے بلوچ مسلح تنظیموں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی گئی ماہل کے بعد ہمارے خاندان کے دیگر افراد سمیت مجھے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھانے کی پاداش میں ہراساں کیا جارہا ہے قبل ازیں پریس کانفرنس کے توسط سے ہم ریکارڈ پر لاچکے ہیں کہ ماہل کے حوالے سے آواز اٹھانے پر ہمیں دھمکیاں دی گئی۔
پری گل بلوچ کا کہنا تھا سی ٹی ڈی کیجانب سے مذکورہ پریس کانفرنس میں میری بہن بی بی گل سمیت میرا نام شامل کرنا ہمارے خاندان پر ہونے مظالم کا تسلسل ہے مذکورہ پریس کانفرنس کے علاوہ ہمیں کسی قسم کی قانونی نوٹس موصول نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی ایف آئی آر کا مجھے علم ہے تاکہ ہم قانونی طریقے اس کا سامنا کرتے۔
انہوں نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہم آپ کے تعاون سے اعلیٰ حکام، عدلیہ، سیاسی جماعتوں سمیت علاقائی و بین الاقوامی انسانی حقوق کے تنظیموں تک اپنی بات پہنچانا چاہتے ہیں کہ ماہل بلوچ کے اغواء نما گرفتاری کے کیس میں انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی بجائے ہمارے خاندان کو آواز اٹھانے سے روکنے کی کوشش کی جارہی ہے ہمیں مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جارہا ہے کہ ہم بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر آواز اٹھانا ترک کردیں۔
پری گل بلوچ نے مزید کہا مذکورہ پریس کانفرنس اور نامعلوم نمبروں کے ذریعے دھکمیاں دینے و ہراساں کرنے کیخلاف آواز اٹھائیں ہم اعلیٰ عدلیہ سے گذارش کرتے ہیں کہ وہ ان واقعات کا نوٹس لیکر مذکورہ پریس کانفرنس میں شامل افراد سے جواب طلبی کریں۔
ایک سوال کے جواب میں پری گل کا کہنا تھا کہ حراست کے دؤران ماہل بلوچ پر تشدد کرکے ویڈیو بیان جاری کیا گیا جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ان سے جو بلوایا گیا وہ تشدد کے بنیاد پر بلوایا گیا البتہ عدالت کو چاہیے کہ وہ سی ٹی ڈی سے اس حوالے سے سوالات کریں-
انہوں نے مزید کہا کہ ماہل کو سیکورٹی ادارواں کی جانب سے دھماکایا گیا وہ ایک خاتون ہیں اس پر تشدد کے ساتھ ساتھ مختلف طریقوں سے دباؤ ڈالا جارہا ہے، ویڈیو میں میری اور میری بہن کے نام شامل کئے گئے جبکہ میں اب بھی کوئٹہ میں موجود ہوں البتہ ہم قانونی جنگ لڑنے کو تیار ہیں اور ماہل کی بازیابی تک ہماری کوشش جاری رہیگی۔