پاکستان کے علاقے جنوبی وزیرستان میںطالبان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ممکنہ فوجی آپریشن کے خلاف حکومت اور اپوزیشن دونوں صفوں میں موجود سیاسی جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
اعلیٰ سول اور فوجی قیادت نے دہشت گردی کے خطرات کو ناکام بنانے کے عزم کا اعادہ کیا اور افغانستان سے آنے والے شدت پسندوں کو شکست دینے کے لیے 15 روز کے اندر نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) دوبارہ نافذ کرنے کا عزم کیا۔
تاہم وفاقی حکومت کے اتحادیوں سمیت سیاسی جماعتوں نے عسکریت پسندوں کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
وفاقی حکومت کی اتحادی جماعت نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ (این ڈی ایم) کے چیئرمین این ڈی ایم محسن داوڑ نے کہا کہ ’حکومت اور سیکیورٹی فورسز عوام کا اعتماد کھو چکے ہیں، لوگ ان پر مزید یقین نہیں کریں گے چاہے وہ عسکریت پسندوں کے خلاف 100 فوجی آپریشن شروع کر دیں‘۔
انہوں نے کہا کہ صرف جڑیں کاٹنا کافی نہیں رہے گا، شدت پسندوں کی قیادت کو بھی ختم کیا جانا چاہیے۔
محسن داوڑ نے سوال کیا کہ ابتدائی طور پر متفقہ نیشنل ایکشن پلان میں شد ت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں تھی لیکن پھر بھی پچھلی حکومت نے مذاکرات شروع کردیے تھے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی افغان پالیسی میں مکمل تبدیلی کی ضرورت ہے، حکومت افغان طالبان کی حمایت کرتی ہے جو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی حمایت کرتے ہیں’۔
ہفتہ (8 اپریل) کو جاری کردہ ایک بیان میں این ڈی ایم نے کہا کہ نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اجلاس کے حوالے سے سامنے آنے والی خبروں نے پشتونوں میں شدید تشویش پیدا کر دی ہے۔
این ڈی ایم نے کہا کہ ’نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں دہشت گردی، افغان پالیسی اور پراجیکٹ طالبان کی جڑوں تک پہنچے بغیر فوجی آپریشن شروع کرنے کی بات کی گئی جس کا مطلب 2007 سے 2014 تک کی جارحانہ کارروائیاں دوبارہ شروع کرنا اور دوبارہ اچھے طالبان اور برے طالبان والی پالیسی اپنانا ہے‘۔