وزارتِ عظمیٰ کاچاند جموں کشمیر کے سیاستدانوں کو ہمیشہ روٹی کی طرح دکھائی دیتا ہے ،اسلام آباد ہمارے “رہبران ملت” کی اس کمزوری سے بھرپور آگاہ ہے یوں لو دو کی میز پر اقتدار کی بھوک مٹانے کے لیے کبھی غیرت، کبھی خود داری کبھی نقد معاملات طے ہوتے ہیں ۔ ماضی میں وسائل سے دست برداری اور غیر معمولی تابعداری صدر ریاست اور وزارتِ عظمیٰ کا معیار تھا، سلطان محمود نے تابعداری کے ساتھ نذرانہ دے کر وزارت عظمیٰ خریدنے کی روایت ڈالی جو اب مستقل رسم ہے ۔
تخت مظفرآباد اور اس سے متعلقہ چھوٹے موٹے عہدوں کی اب بولی لگتی ہے اس طرح آزادی کے بزنس کیمپ کے سٹاک ایکسچینج میں کبھی استحکام رہتا ہے اور کبھی سرمایہ کاروں کا سرمایہ ڈوب جاتا ہے۔
ایسے ماحول میں یہاں قانون اور میرٹ سیاست دانوں کی صوابدید ہے اور صدر ریاست وزیراعظم پارٹی ہیڈ وزیر مشیر حتی کہ بلدیاتی اداروں کے سربراہان کی تعنیاتی اسلام آباد پنڈی براستہ مری کی صوابدید ہے ۔
تنویر الیاس کے معاملے میں صوابدید ہی پریکٹس کی گئی۔
سردار عبدالقیوم نیازی پھر سردار تنویر الیاس اور اب دو سرداروں کے بعد چوہدری انوارالحق ۔ مقتدرہ کے نام سے مشہور “بڑا جیٹھ” ہمیشہ کی طرح کار سرکار کے مفاد کی آڑ میں وزراء اعظموں کی تقرری تبادلہ اور معطلی کے فیصلے کر رہا ہے۔
مرضی بڑے جیٹھ کی ضرور سہی لیکن کیا سارا ملبہ بڑے جیٹھ پر ڈالا جا سکتا ہے ؟؟؟؟ میرے خیال میں اس بازار کا “جل تھل”نظریہ ضرورت کا مرہونِ منت ہے۔
کیا یہ پہلا واقعہ ہے اور کیا تنویر الیاس اس کہانی کے پہلے ولن ہیں ؟
ایسا نہیں ہے ۔
ماضی گواہ ہے مسلم کانفرنس کی صدارت ہو یا آزاد کشمیر کی صدارت سردار ابراہیم اور چوہدری غلام عباس ہر دو کی”حریت” وزارت امور کشمیر کی چوکھٹ پر قربان ہوئی ۔۔ وزیر بے محکمہ مشتاق گورمانی ,ان کے بعد والے ، مقتدرہ کا کیمپ , کشمیر کونسل کے کلرک کا کمرہ اس دھرتی کے زیادہ تر سیاسی پرکھوں نے کبھی اپنا احترام نہیں کروایا اور ہمیشہ ماتحت ملازم کی طرح سلوک کے مستحق ٹھہرے۔
سردار ابراہیم خان ،چوہدری غلام عباس خورشید الحسن خورشید ،سردار عبدالقیوم خان، سردار سکندر حیات ، راجہ ممتاز حسین راٹھور ، سلطان محمود چوہدری ، سردار عتیق احمد خان ، راجہ فاروق حیدر خان ، سردار یعقوب خان ،سردار عبدالقیوم خان نیازی ، سردار تنویر الیاس اور اب چوہدری انوارالحق ۔۔۔
ہمارے سارے سرداروں چوہدریوں اور راجاؤں کے لیے چیف ایگزیکٹو (صدر اور وزیراعظم) کا عہدہ حسین عورت کے سائے کی طرح ہے جس سے بھرپور انداز میں “ہم کلام ” ہونا صرف خواہش رہی۔
ریکارڈ گواہ ہے 1947 سے آج تک اسلام آباد کی طرف سے جموں کشمیر چیپٹر کی بزنس ڈیل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
یوں ابتدائے عشق سے انتہائے عشق تک یہ ثابت ہوا قول و فعل کی اخلاقیات الگ الگ ہیں ۔۔
سال 2022 میں مجاہدوں غازیوں اور رہبران جموں کشمیر کی سرزمین میں “تبدیلی پراجیکٹ”کے اہم نمائندے تنویر الیاس دولت کے گھوڑے پر بیٹھ کر وزارت عظمیٰ کی کرسی پر اترے اور کم وبیش ایک سال کے بعد ہوا کے گھوڑے پر بیٹھ کر ماضی کا حصہ بن گے۔
جو لائے تھے انھوں نے واپسی کا راستہ دکھایا بلکہ گھر چھوڑ کر آئے ۔
اقتدار کے “باڑے” میں داخل ہونے کے لیے تنویر نے ہر تالا پیسے کی چابی سے کھولا ۔”تنویر نامہ” لکھنے والے ہر کردار کو خریدا ،چاپلوسوں چمچہ گیروں کی ہر واہ پر جیب بھری۔۔
ان کا واحد کارڈ دولت تھا پہلے انھوں نے طاقت کے مراکز کو اپنے روایتی طریقے سے اعتماد میں لیا اور پھر ان سے سروسز لیں ۔مقتدرہ کے گڈ بوائے سلطان محمود کو بے بس کر کے باہر کیا ، سردار عبدالقیوم نیازی جس کو صرف نو ماہ قبل وزیراعظم بنایا گیا تھا اسے ہٹا کر جگہ لینے میں کامیابی حاصل کی۔
جب دولت بے حساب ہو تو شہرت خریدی جاتی ہے یہی تنویر الیاس نے کیا۔ پاکستان کے دس بہترین کاروباری مراکز میں سے ایک (سینٹورس) کی آنر شپ ہاؤسنگ سوسائٹیز کمپنیز لیکن مخصوص کاروباری حلقوں کے علاوہ ان کا کوئی تعارف نہیں تھا ۔یوں مشہور ہونے کے لیے سیٹھ تنویر الیاس نے آٹھ دس ارب میں جو سودا کیا وہ مہنگا نہیں تھا۔
ایک ایسا شخص جو اپنوں بیگانوں طاقت کے سارے مراکز کو حصہ دیتا تھا آخر ایسا کیا ہوا کہ اسے اچانک گھر بھیج دیا گیا ۔
پہلے تنویر الیاس حکومت کی ایک سال کی کارکردگی دیکھتے ہیں ۔
قانون ساز اسمبلی کا بزنس دیکھا جائے صرف ایک قانون شاید منظورِ ہوا ہو تو کہا نہیں جا سکتا باقی پورا سال خاموشی رہی۔
اڑھائی درجن سے زائد محکمے ہیں ۔محکموں کی کارکردگی میں بہتری لانے کے لیے پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر اہداف اور مسائل کے حوالے سے بریف کرتے ہیں ایک سال میں درجنوں مرتبہ وزیراعظم وقت دے کر دستیاب نہیں ہوئے جس سے خدمات اور تعمیر وترقی کا عمل رک کر رہ گیا۔
ہیرو بننے کے لیے وزیراعظم پاکستان سے میرپور میں تصادم اور پھر پریس کانفرنس کے ذریعے کشمیر دشمن قرار دینا. اسلام آباد سے فنڈز کے حصول میں ناکامی 28 ارب کے ترقیاتی بجٹ میں سے 34 فیصد ملا۔ عقل کل کا تاثر دینا اور ہر چہرے کو دولت سے ناپنا ،لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنا ۔ائین اور قانون کو اہمیت نہ دینا مثلآ آئین میں دیے گے اختیار سے تجاوز کر کے مشیروں اور معاونین کی معقول تعداد بھرتی کی اور استحقاق نہ ہونے کے باوجود گاڑیاں اور تنخواہیں دیں ۔وزراء سیکریٹریز حکومت کو بلا کر 24 گھنٹے کے لیے سو جانا۔ فائلوں کے ڈھیر ان کے ساتھ ساتھ چلتے رہے لیکن دیگر غیر ضروری مصروفیت کو ترجیح دیکھنے کو ملی۔
شاہانہ اخراجات کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صوابدیدی فنڈز کی مد میں یومیہ17 لاکھ 36 ہزار اور ہیلی کاپٹر پر یومیہ ایک لاکھ 12 ہزار اخراجات کیے گے۔
جس نظام میں ہم رہتے ہیں اسے دیکھا جائے تو جو کچھ تنویر الیاس نے کیا وہ مسئلہ ہے نہ جرم ۔۔۔
تو پھر مسئلہ ہے کیا؟
حقیقت تنویر الیاس مقتدرہ اور عمران خان کی جنگ میں خود کے غیر جانبدار نہ رکھ سکے ۔انھوں نے اقتدار بچانے کے لیے جب ڈبل گیم شروع کی ہر دو فریقین باخبر تھے عمران خان انھیں مقتدرہ کا خاص سمجھتے تھے جبکہ دوسری طرف اطلاعات یہ تھیں کہ وہ عمران خان کے جلسوں ریلیوں اور مظاہروں کی فنڈنگ کرتے ہیں ۔
مبینہ اطلاعات کے مطابق انھوں نے 62 کروڑ کے صوابدیدی فنڈز میں سے 22 کروڑ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کو مظاہروں اور جلسوں کے لیے دیے ۔بقیہ 40 کروڑ میں سے ایک بڑا حصہ دوتین سیکرٹری حضرات نے آپس میں تقسیم کر لیا اور کچھ تنویر الیاس پبلک میں “ویل”کی شکل میں پھینکتے رہے۔
دسمبر 2022 میں یہ بازگشت سنائی دی جانے لگی کہ تنویر الیاس کو گھر بھیجنے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ تنویر الیاس کو اطلاع ملی انھوں نے کچھ احباب سے مشاورت کی اور فیصلہ کیا کہ فلور کراسنگ کے حوالے سے آرڈیننس لایا جائے تاکہ وفاداری تبدیل کرنے والے نااہل ٹھہریں ۔چوہدری انوارالحق نے صدارتی آرڈیننس کا راستہ روکنے کے لیے اپوزیشن سے مشاورت کے بعد 7 فروری 2023 کو قانون ساز اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیا جو دو ماہ سے زائد عرصے تک جاری رہا۔ آئینی ماہرین یہ کہتے ہیں کہ جاری اجلاس کے دوران آرڈینینس نہیں لایا جا سکتا لیکن حکومت اسمبلی میں بل پیش کر کے بھی فلور کراسنگ ایکٹ لاسکتی تھی مگر مشیروں نے اس خدشے کا اظہار کیا اگر حکومت ناکام ہو گئی تو اعتماد کا ووٹ لینا پڑے گا ۔
انھیں گھر بھیجنے کے لیے ایک سے زیادہ آپشن زیر غور تھے
یہ ٹھیک ہے نہیں یہ نہیں یہ ٹھیک ہے اگر یہ آپشن استعمال کریں تو زیادہ مناسب ہوگا نیا قائد ایوان پی ٹی آئی کے اندر سے یا اپوزیشن میں سے ۔۔۔۔۔ فائنل راؤنڈ کا زیادہ انحصار سلطان محمود پر تھا لیکن ان کی شرائط بہت سخت تھیں ۔۔ مثلآ وہ چاہتے تھے کہ خفیہ اداروں کے زمہ دار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت ان کے سیاسی حریف چوہدری سعید سب لکھ کر دیں کہ تین ماہ بعد سلطان محمود کو وزیراعظم بنایا جائے گا۔ اس کے لیے انھوں نے چوہدری رشید کا نام دیا مگر معاملات حتمی نہ ہوسکے چوہدری یاسین کا نام سامنے آیا تو پیپلز پارٹی کے اندر سے مخالفت سامنے آئی ۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کو آزاد کروانے والے لشکری (اراکینِ اسمبلی) مظفرآباد میں موجود مقتدرہ کے دفاتر کے باہر فارچونر گاڑیوں سے اترتے ہدایات لیتے رہے ۔ آخر کار قرعہ چوہدری انوارالحق کے نام نکلا۔
بات مقتدرہ ،اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں یا اسلام آباد کی ضرور ۔۔۔ تنویر الیاس خود بھی جلدی میں تھے ۔ چند ماہ قبل سابق چیف جسٹس مصطفیٰ مغل نے انھیں بتایا تھا انھیں گھر بھیجنے کے لیے عدلیہ میں معاملہ جا سکتا ہے لہذا وہ عدلیہ کے متعلق گفتگو میں احتیاط کریں ۔
کسی نے ہیرو بننے کا مشورہ دیا اور وہ پبلک مقامات پر عدلیہ کے خلاف دھواں نکالنا شروع ہوگے۔
ہر دو عدالتوں نے انھیں مشترکہ طور پر نوٹس کیا وہ کسی فلمی ہیرو کی طرح عدالت میں آئے اعتراف کیا اور خریدے ہوئے اقتدار سے محروم ٹھہرے ۔
یہ الزام ہائی کورٹ نے انھیں سماعت کیے بغیر فیصلہ کیا درست نہیں ۔
جیف جسٹس ہائی کورٹ نے انھیں کہا کہ آپ وقت لے لیں ۔۔۔لیکن سابق وزیراعظم اپنے مزاج کے آدمی تھے وہ اپنی گفتگو کے ایسے عاشق تھے جس کے سامنے دوسروں کی آواز کم سنائی دیتی ہے۔اس طرح وہ لیگل ٹیم اور بیوروکریسی کے بچھائے ہوئے جال سے باہر نہ نکل سکے ۔
ایڈوکیٹ جنرل مقبول وار، تین ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل راجہ سعید چوہدری منظور راجہ مظہر سعید، دو اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل سجاد پیر زادہ ,حیدر رشید مغل سب ناکام ہوئے
سماعت سے ایک دن قبل اصغر علی ملک کو بطورِ پرائیویٹ وکیل لایا گیا جنھوں نے آتے ہی سماعت سے 12 گھنٹے قبل معافی نامہ لکھنے کا کام کیا۔
یہ بھی درست ہے تنویر الیاس پیش نہیں ہونا چاہتے تھے بیورو کریسی نے کہا کہ معاملہ منیج ہو چکا ہے آپ معافی مانگ لیں ۔۔۔۔۔بات ختم ہو جائے گی ۔۔۔
انھیں اعتراف کی سنہری زنجیروں کے ساتھ باندھ کر عدلیہ کے سامنے پیش کیا گیا ۔۔۔
اور کہانی ختم ہوگئی ۔
تحریر ملک عبدالحکیم کشمیری